کیا امریکہ اور عالمی برادری کو پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود بنیادی مسائل پر توجہ دینی چاہیئے؟ یہ وہ سوال ہے جو مختلف فورمز سے لے کر روزمرہ کی بات چیت میں اکثر زیر بحث رہتا ہے۔ کیونکہ جوہری قوت کے حامل ، خطے کے ان دونوں ممالک کے درمیان عشروں سے موجود مسائل حل کیے بغیر علاقے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔وی او اے نے کانگریس وومن شیلا جیکسن لی سے ایک خصوصی انٹرویو میں یہ سوال اورپاکستان کے ساتھ سول نیوکلیئر ڈیل کے امکان کے بارے میں بھی پوچھا۔ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور دیگر مسائل کو حل کرنے میں امریکہ کی جانب سے کیا مدد کی جاسکتی ہے؟
جیکسن لی کا کہنا تھا کہ ہم تمام قوموٕں کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا ایک اہم خطہ ہے اور صرف بھارت ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش اور دیگر دوسرے ممالک پر مشتمل ہے۔ اس معاملے پر پاکستان اور افغانستان نے منفرد اور اہم مسائل پر اتحاد کیا ہے جن کا تعلق افغانستان میں جاری جنگ سے ہے۔ بھارت ایک خود مختار ملک ہے اور تینوں ممالک کو کسی نے نہیں روکا کہ وہ آپس میں بات چیت سے اپنے مسائل حل کریں۔ ہم اسکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔امریکہ اور کانگریس بھارت اور پاکستان کے درمیان نئے طریقوں سے بات چیت کو آگے بڑھانے اور اور ان مشکل مسائل پر غور کرنے اور اس سلسلے میں بات چیت کی حمایت کے لیے تیار ہے ۔ لیکن امریکہ کسی خودمختار قوم پر کسی دوسری قوم کے ساتھ کسی مخصوص مذاکرات کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ ہم مذاکرت اور مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اور میں چاہتی ہوں کہ پاکستان، بھارت ، بنگلہ دیش اور افغانستان آپس میں علاقائی سطح پر بات چیت کریں۔
امریکی کانگریس وومن سے ایک سوال سویلین نیوکلیئر ڈیل کے بارے میں تھا ۔ ان سے پوچھا گیا کہ بھارت کی طرح پاکستان کے ساتھ سویلین نیوکلیئر ڈیل کے حوالے سے کانگریس میں کیا احساسات پائے جاتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ ہم سب کو توانائی کی ضرورت ہے۔ یقینا یہ مسئلہ اٹھایا جاچکا ہے لیکن میرے لیے اس پر کچھ کہنا بہت قبل از وقت ہوگا۔ مجھے معلوم ہے کہ ساڑھے سات ارب ڈالر کی امداد میں توانائی کے بارے میں بھی کئی چیزیں موجود ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ توانائی کے ذرائع بڑھانے کے کئی مواقع موجود ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ان ذرائع پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ اور امریکی عوام کی امداد سے ان ذرائع کو بڑھانا چاہیے۔
سویلین نیوکلیئر ڈیل پر ان کا کہناتھا کہ میں اس موضوع پر قبل از وقت بات کرنا نہیں چاہتی ۔ میں پاکستان کی دوست ہوں۔ او ر کانگریس کئی ارکان پاکستان کے دوست ہیں۔ یہ تجویز سامنے آنے کی صورت میں ہمدردانہ غور کے لیے آپ ہم پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔
ڈرون حملوں کےبارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر کانگریس وومن جیکسن لی کا کہناتھا کہ اس میں کو ئی شک نہیں کہ جب آپ دورے پر جاتے ہیں تو آپکو اپنے اتحادیوں کے موقف کو سننا پڑتا ہے۔اسی طرح سے ہمیں امریکی حکومت کو بھی سننا پڑتا ہے۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں چھپے ہوئے لوگوں سے متعلق کچھ چیزیں بہت تشویشناک ہیں ۔ لوگوں کو دہشت گردی سے اور سرحدی علاقوں میں دہشت گرد گروپوں کو ڈھونڈنا بھی ضروری ہے۔ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ معصوم زندگیاں ضائع ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس سلسلے میں بات چیت جاری رکھنا ضروری ہے۔ پاکستانی لیڈرشپ کو امریکی عوام سے رابطے میں رہنا چاہیے۔ میرے خیال میں دونوں ممالک کے تعلقات کا دارومدار صرف ایک مسئلے پر نہیں ہونا چاہیے۔