بھارت کے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہونے پر پاکستان نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی نفی کرنے والے ملک کا رکن منتخب ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
جمعرات کو پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہونے پر دیگر ملکوں کو مبارکباد دی گئی لیکن بیان میں بھارت کے انتخاب پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت سلامتی کونسل کے چارٹر اور قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے مطابق بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر میں کشمیریوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنا سیکیورٹی کونسل چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق ہائی کمشنر کی تفصیلی رپورٹ موجود ہے۔
پاکستان نے بھارت کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن بننے کی حمایت گزشتہ جون 2019 میں کی تھی جب بھارت نے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا تھا۔
پاکستان اور بھارت خطے کے روایتی حریف ہونے کے باوجود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکنیت کے لیے ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
اسی وجہ سے گزشتہ سال جون میں جب بھارت نے سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے طور پر خود کو امیدوار ظاہر کیا تو نہ صرف پاکستان بلکہ چین نے بھی اس کی حمایت کی۔
تاہم اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی متنازع پیش رفت کے بعد پاکستان اور چین کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔
خطے کی نئی صورت حال کے تناظر میں پاکستان نے اپنے موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے بھارت کے سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن منتخب ہونے پر سوالات اٹھائے ہیں۔
خیال رہے کہ بدھ کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھارت، میکسیکو، ناروے اور آئرلینڈ کو آئندہ دو برس کے لیے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب کیا تھا۔
جنرل اسمبلی کے بدھ کو ہونے والے اجلاس کے دوران سلامتی کونسل کی پانچ نشستوں کے لیے سات ارکان کے مابین مقابلہ تھا۔
اجلاس میں چار ارکان منتخب کر لیے گئے جب کہ افریقہ کی مختص ایک نشست کے لیے جبوتی اور کینیا دونوں میں سے کوئی بھی ملک دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفارت کار آصف درانی کا ماننا ہے کہ بھارت کے سلامتی کونسل کے رکن منتخب ہونے پر پاکستان کے موقف میں سختی، نئی دہلی کے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کی یک طرفہ تبدیلی کی وجہ سے آئی ہے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ سلامتی کونسل میں بھارت بطور غیر مستقل رکن کشمیر یا خطے کے معاملات پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکے گا کیوں کہ کونسل میں طاقت کا محور مستقل رکن ممالک ہیں جن کے پاس ویٹو کا اختیار ہے۔
پاکستان سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی بھارت کی کوششوں کی مخالفت بھی کرتا رہا ہے اور اس حوالے سے اقوامِ متحدہ میں اس گروپ کا متحرک رکن ہے جو سلامتی کونسل میں مستقل اراکین کی تعداد میں اضافے کا مخالف ہے۔
سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت حاصل کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔
بدھ کو ہونے والی ووٹنگ کے دوران افریقی ملک کینیا نے 113 اور جبوتی نے 78 ووٹ حاصل کیے۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد افریقہ کی نشست پر دوبارہ ووٹنگ ہو گی۔
ایشیا پیسیفک ریجن کی مختص نشست کے لیے ووٹنگ میں 192 ممالک نے حصہ لیا جس میں سے بھارت نے 184 ووٹ حاصل کیے۔
بھارت آخری بار 2010 میں سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہوا تھا جب اس نے 190 میں سے 187 ووٹ حاصل کیے تھے۔
بھارت ایسے موقع پر سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہوا ہے جب چین کے ساتھ اس کی سرحدی کشیدگی عروج پر ہے۔
میسکسیکو کی رکنیت کے خلاف بھی کسی بھی رکن نے ووٹ نہیں دیا۔ اس طرح میکسیکو 187 ووٹ حاصل کر کے آئندہ دو سال کے لیے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بن گیا ہے۔
بھارت کی رکنیت، خطے کے لیے کتنی اہم؟
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کو سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت ملنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
اپنی ٹوئٹ میں نریندر مودی نے کہا کہ وہ سلامتی کونسل میں بھارت کی رکنیت کے لیے عالمی برادری کی بھرپور حمایت پر اس کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت عالمی سطح پر امن، سلامتی اور مساوات کے فروغ کے لیے تمام رُکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندے ٹی ایس تری مورتی نے اس انتخاب کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ بھارت ایک نازک موڑ پر سلامتی کونسل کا رکن بنا ہے۔
بھارت کے سینئر تجزیہ کار اشوک سجن ہار کا کہنا ہے کہ ایسے وقت جب چین کے ساتھ بھارت کی سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، بھارت کا سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہونا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
وائس آف امریکہ کے نئی دہلی میں نمائندے سہیل انجم سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی حیثیت سے سلامتی کونسل میں بھارت کی آواز کا ہونا نہ صرف بھارت کے لیے بہت اہم ہے بلکہ پوری دنیا کی امن و سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے۔
اشوک سجن کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی، عالمی تجارت اور صحت کے معاملات پر بھارت اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔
بھارت نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک بروشر جاری کیا تھا جس میں اقوامِ متحدہ امن مشن میں شفافیت لانے، عالمی ادارے میں اصلاحات، سلامتی کونسل میں توسیع اور عالمی دہشت گردی کے خلاف ایک جامع کنونشن تشکیل دینے کی بات کی تھی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب بھارت کو یہ موقع ملے گا کہ وہ سلامتی کونسل میں یہ نکات خود اٹھا سکے۔
اشوک سجن ہار کہتے ہیں کہ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو بھارت اس معاملے کو ہر عالمی فورم پر اٹھاتا رہا ہے۔ بھارت نے 1986 میں عالمی دہشت گردی کے خلاف ایک جامع کنونشن (سی سی آئی ٹی) کی تجویز اقوامِ متحدہ میں پیش کی تھی۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہشت گردی کی تعریف کیسے کی جائے اس پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا ہے اس لیے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت اس بارے میں اپنی کوشش جاری رکھے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں بالخصوص نریندر مودی حکومت کے دوران بھارت کا سیکولر تشخص متاثر ہوا ہے۔ متعدد عالمی اداروں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔
شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) اور جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے بھارت پر نکتہ چینی ہوئی ہے۔
اشوک سجن ہار کے خیال میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر حملوں کا الزام لگانے والے انصاف سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ ان کے خیالات بدنیتی پر مبنی ہیں اور جن اداروں نے ایسی باتیں اٹھائی ہیں وہ کمیونسٹ نظریات کے حامل ہیں۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سی اے اے کا معاملہ ہو یا دفعہ 370 کے خاتمے کا، حکومت نے پارلیمنٹ سے دو تہائی منظوری کے بعد ہی یہ قانون سازی کی تھی۔
کینیڈا پھر منتخب نہ ہو سکا
سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کا خواہش مند کینیڈا ایک مرتبہ پھر مغربی ملکوں کے لیے مخصوص نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
اس سے قبل 2010 میں بھی کینیڈا مذکورہ نشست حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔
کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس سال سیکیورٹی کونسل کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے خاصے سرگرم تھے تاہم اس کوشش میں ناکامی پر اندرونِ ملک اُنہیں سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جسٹن ٹروڈو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کینیدا دنیا کو پر امن بنانے کے لیے اپنا اہم کردار اور تعاون جاری رکھے گا۔
جنرل اسمبلی کے نئے صدر کا انتخاب
جنرل اسمبلی نے بدھ کو ہونے والے اجلاس کے دوران اپنے نئے صدر کا بھی انتخاب کیا۔ صدارت کی دوڑ میں ترکی کے مندوب ولکن بوزکیر واحد امیدوار تھے جن کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ تاہم آرمینیا، یونان اور قبرص نے ان کی مخالفت کی۔
مذکورہ تینوں ملکوں کے ترکی کے ساتھ کشیدگی تعلقات ہیں۔
سلامتی کونسل اقوامِ متحدہ کے چھ کلیدی اداروں میں سب سے اہم ادارہ ہے جس کی بنیادی ذمہ داری بین الاقوامی امن اور سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔
امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور فرانس سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں جب کہ سلامتی کونسل کے 10 غیر مستقل اراکین ہوتے ہیں جن میں سے پانچ کا انتخاب ہر سال دو سال کی مدت کے لیے کیا جاتا ہے۔