دورے پر آئے ہوئے39ارکان پر مشتمل بھارت کے کُل جماعتی وفد نے سری نگر کے بعد اب جموں میں مقامی سیاسی، سماجی اور تجارتی تنظیموں اور انجمنوں کے لیڈروں کے علاوہ مقامی بار کونسل کے اراکین کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔
جہاں دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی لیڈروں نے وفد کے سامنے اپنے اِس مؤقف کا اعادہ کیا کہ وادیٴ کشمیر میں جاری تحریکِ مزاحمت سے نمٹنے کے لیے حفاظتی دستوں کو مزید اختیارات دیے جائیں اور آزادی کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں اور لیڈروں کے دباؤ میں آکر آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں واپس لیا جائے، بعض سیاسی اور سماجی جماعتوں نے معاملات کو افہام و تفہیم کے ذریعے سلجھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
اِس سےقبل سری نگر سے جموں روانہ ہونے سے پہلے وفد نے تنگ مرگ میں جا کر مقامی سیاسی اور سماجی نمائندوں سے ملاقات کی۔ تنگ مرگ کے قصبے میں گذشتہ ہفتے پُر تشدد واقعے کے دوران نصف درجن افراد پولیس فائرنگ میں مارے گئے۔
وفد کے کچھ ارکان نے سری نگر کے صدر اسپتال کا بھی دورہ کیا۔معلوم ہوا ہے کہ اُن کی آمد کے ساتھ ہی تیمار داروں ، یہاں تک کہ چند بیماروں نے بھی، آزادی کے نعرے بلند کیے۔وفد، فائرنگ میں زخمی ہونے والے درجنوں افراد میں سے صرف دو سے مل سکا۔ ایک زخمی شخص نے وفد کے ساتھ بات تو نہیں کی صرف اپنی ہتھیلی دکھائی جس پر اردو میں یہ الفاظ درج تھے: ‘ہم آزادی چاہتے ہیں۔’
وفد میں شامل بھارت کے ایک سابق وزیر رام ولاش پاسوان نے آزادی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی سے ملاقات کی۔پیر کو وفد کے چند دوسرے ارکان بھی سید گیلانی سے ملے تھے جب کہ بعض دوسرے میمبران نے دو اور آزادی پسند لیڈروں میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔