بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں قوم پرست جماعتوں کی کال پر گذشتہ چار دِنوں سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، اور مظاہرین پر پولیس فائرنگ سے پانچ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں نو برس کا لڑکا توقیراحمد راتھر شامل ہے، جب کہ 22سالہ تجمل احمد بٹ بھی مبینہ طورپربھارت کی وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف)کی طرف سے کی گئی فائرنگ کا شکار بنے۔
سی آر پی ایف کے اعلیٰ عہدے داروں کا دعویٰ ہے کہ طاقت کا استعمال سپاہیوں نے اپنے دفاع میں کیا، کیونکہ اُنھیں مشتعل مظاہرین نے زوردار پتھراؤ کا ہدف بنایا ۔ لیکن، بھارتی کشمیر کے وزیرِ قانون اور پارلیمانی امور علی محمد ساگر نے عجلت میں بلائی گئی پریس کانفرنس کے دوران الزام لگایا کہ فورس نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ۔
اُنھوں نے اِسے ایک بے قابو فورس قرار دیتے ہوئے بھارت کے وفاقی وزیر پی چدم برم سے فوری طور پر کشمیر آکر حالات کو قابو میں لانے کی اپیل کی ہے۔
صوبائی وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے اتوار کی شام چدم پرم سے فون پر رابطہ قائم کرکے وفاقی حفاظتی دستوں کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکت پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
اُدھر پیر کو سری نگر اور وادی کشمیر کے کئی اور علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے سوپور شہر کی طرف پیش قدمی شروع کردی جہاں گذشتہ چار روز کے دوران حفاظتی دستوں نے چار نوجوانوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے لانگ مارچ کرنے والوں کو روکنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ اشک آور گیس کے گولے داغے، ہوا میں فائرنگ کی لیکن جب سوپور کی طرف مارچ کرنے والوں پر اِس کا کوئی اثر نہ ہوا اور اُنھیں مزاحمت دکھاتے ہوئے حفاظتی دستوں پر پتھراؤ کیا تو اُن پر براہِ راست گولی چلائی گئی۔ سوپور کے مضافات میں واقع سیلون میں ایک نوجوان اور قریبی قصبے دلینا میں ایک نو عمر لڑکا ہلاک ہوگئے۔
‘سوپور چلو’ کے لیے اپیل حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں نے دی تھی لیکن پولیس نے اتحاد کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ مختلف آزادی پسند جماعتوں کے لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے یا پھر گھروں میں نظربند کرکےاُنھیں لانگ مارچ میں شریک ہونے سے روکا، لیکن، وہ ہزاروں لوگوں کو سوپور کا رخ کرنے سے نہ روک سکے۔ تازہ ہلاکتوں کی خبر پھیلتے ہی وادی کشمیر کے مختلف علاقوٕ ں میں عوامی مظاہروں کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔