ایک ایسے وقت میں جب بھارتی ٹیلی وژن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے تل ابیب میں شاندار استقبال اور بنیامن نتن یاہو کے ساتھ ان کی گرمجوش ملاقات کی تصاویر براڈ کاسٹ کر رہا ہے جس سے وسیع اسٹریٹیجک اور اقتصادی شراکت داریوں کے لیے راستہ ہموار ہوتا ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی بیشتر تاریخی حقائق اور حالات کو نظر انداز کر چکا ہے۔
نئی دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی کے پروفیسر کمار سوامی کہتے ہیں کہ اس ہفتے ایک بھارتی وزیر اعظم کا یہودی ریاست کا اولین دورہ 25 سال میں بیشتر أوقات بند دروازوں کے پیچھے استوار ہونے والے ا یک رشتے کا عوامی سطح پر ایک اعتراف ہی نہیں تھا بلکہ یہ مشرق وسطیٰ کے اندر اسرائیل کے تعلقات معمول پر آنے کا عکاس بھی ہے۔
مسٹر کمار جو اس دورے کے موقع پر اسرائیل میں تھے، کہتے ہیں کہ مودی کے دورے کا ایک اہم ترین پیغام یہ تھا کہ بھارت اسرائیل کے ساتھ اسی طرح لین دین کرے گا جس طرح وہ کسی تیسرے فریق کے بارے میں فکر مند ہوئے بغیر خطے کے کسی دوسرے ملک مثلاً متحدہ عرب امارات سعودی عرب سے کرتا ہے۔
اس چیز کو اس حقیقت نے اجاگر کیا کہ بیشتر عالمی راہنماؤں کے برعکس مودی نے رملہ کے سفر کا انتخاب نہیں کیا یا اسرائیل میں گذارے ہوئے 49 گھنٹوں کے دوران فلسطین کا ذکر تک نہیں کیا۔ دونوں ملکوں کی جانب سے جاری کیے گئے ایک مشترکہ اعلامیے میں صر ف خطے میں انصاف اور پائیدار امن کی بات کی گئی۔
جو پیغام اجاگر کیا گیا وہ یہ تھا کہ بھارت فلسطینی نصب العین کا ایک پرانا حامی تھا اب دونوں کے ساتھ تعلقات کو الگ کر رہا ہے اور کھلم کھلا ایک ایسی شراکت داری کی توثیق کر رہا ہے جس میں نئی دہلی کے لیے دفاع اور انسداد دہشت گردی سے لے کر پانی اور زرعی ٹکنالوجی تک کے متعدد شعبوں میں بہت کچھ پیش کیا جا رہا ہے۔
کمار سوامی نے کہا کہ مودی نے زبانی طور پر کچھ کہنے سے احتراز کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے ایک زمینی حقیقت پر رد عمل ظاہر کیا کہ فلسطینی نصب العین کی اہمیت کم ہو چکی ہے۔
مودی کے موقف کی بھارت میں بڑے پیمانے پر توثیق کی گئی جہاں ماضی میں عرب ملکوں کی فکر مندی کے بارے میں خدشات اور اس کی اپنی مسلم آبادی نے اسے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر خاموش رہنے پر مجبور کیا تھا۔
تاہم تجزیہ کار زور دے کر کہتے ہیں کہ بھارت نے فلسطینی نصب العین کی حمایت ترک نہیں کی ہے ۔ وہ مودی کے اسرئیل کے دورے سے قبل فلسطینی صدر محمود عباس کے بھارت کے دورے کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جب نئی دہلی نے انہیں دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا۔
نئی دہلی کے آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے اسٹریٹجک اسٹڈیز پروگرام کے سر براہ ہیرش پانٹ کہتے ہیں کہ نئی دہلی کے لیے ا س حقیقت کو اجاگر کرنا اہم ہے کہ بھارت اور اسرائیل آخر کار باقاعدہ طور پر دوست ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بھارت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو اپنا حق سمجھتا ہے۔
اور یہ دفاع میں ان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی بنیاد پر استوار ہونے والے تعلق تک محدود نہیں ہوں گے جس نے اس حوالے سے بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے کہ اب اسرائیل بھارت کو سالانہ لگ بھگ ایک ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کر کے اسے ہتھیار فراہم کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
در حقیقت زیادہ تر گفتگو دوسرے عام شعبوں پر مرکوز رہی مثلاً پانی، زرعی ٹکنالوجی، جس میں بھارت اسرائیل کی مہارتیں استعمال کر سکتا ہے۔
بھارت اور اسرائیل کی دوستي میں اس سال کے آخر میں اس وقت مزید اضافہ ہو سکتاہے جب وزیر اعظم نتن یاہو پروگرام کے مطابق نئی دہلی کا دورہ کریں گے۔
مسٹر ہرش کہتے ہیں کہ ایک سوچ موجود ہے جس پر سیاسی طبقہ متفق ہو چکا ہے ۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ماضی کی ہچکچاہٹ ختم ہو چکی ہے اور اس سے مزید اہم اثرات کے لیے راستہ ہموار ہو تا ہے۔