ایوانکا ٹرمپ کے دورے سے قبل حیدرآباد شہر قلعے میں تبدیل

بھارتی شہر حیدرآباد میں کاروباری افراد کی عالمی کانفرنس کے سلسلے میں سیکیورٹی انتظامات کیے جارہے ہیں۔ 22 نومبر 2017

سائبرآباد علاقے کے مدھاپور میں واقع حیدرآباد انٹرنیشنل کنونشن سینٹر کے علاوہ تاج فلک نما پیلس اور قلعہ گول کنڈہ میں بھی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ان دونوں مقامات پر اسٹیٹ ڈنر کا اہتمام کیا جائے گا۔

سہیل انجم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحب زادی اور مشیر اوانکا ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ حیدرآباد سے قبل شہر کو قلعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ دونوں شخصيات 28 سے 30 نومبر تک جاری رہنے کاروباری افراد کی ایک عالمی سربراہ کانفرنس میں شرکت کریں گی۔

امریکی سیکرٹ سروس، اسپیشل پروٹکشن گروپ اور تلنگانہ ریاستی پولیس نے متعدد ادوار کے اجلاسوں کے بعد سیکیورٹی کا نظام طے کیا ہے۔

حیدرآباد کے پولیس کمشنر وی وی سری نواس راؤنے میڈیا کو بتایا کہ ریاستی پولیس نے امریکی سیکرٹ سروس، انٹیلی جنس سیکیورٹی ونگ اور سٹی سیکیورٹی ونگ کے ساتھ مل کر اوانکا اور مودی کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں شخصيات کے لیے الگ الگ حفاظی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ایس پی جی، آئی ایس ڈبلیو اور ریاستی پولیس کے ذمہ وزیر اعظم کی سیکیورٹی ہوگی اور اوانکا کی سیکیورٹی کی انچارج امریکی سیکرٹ سروس ہوگی۔ اوانکا شہر میں اپنی بلٹ پروف گاڑی استعمال کریں گی اور ان کے قریب امریکی سیکرٹ سروس کے اہل کار ہوں گے۔

کانفرنس کے پر امن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے تلنگانہ پولیس کے پندرہ ہزار جوان شہر میں تعینات رہیں گے۔ چپے چپے پر نظر رکھنے کے لیے کنٹرول روم بنائے گئے ہیں۔

سائبرآباد علاقے کے مدھاپور میں واقع حیدرآباد انٹرنیشنل کنونشن سینٹر کے علاوہ تاج فلک نما پیلس اور قلعہ گول کنڈہ میں بھی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ان دونوں مقامات پر اسٹیٹ ڈنر کا اہتمام کیا جائے گا۔

تاج فلک نما پیلس تک جانے والے راستوں پر کئی دنوں سے سیکیورٹی جوان تعینات ہیں جو پیلس کے اطرف میں تلاشی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ پولیس نے مقامی باشندوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس دوران اجنبی افراد کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں۔

تقربیات کے مقامات پر 150 اضافی سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں اور 2200 اضافی سیکیورٹی اہل کار تعینات ہیں۔ وزیر اعظم مودی اور اوانکا ٹرمپ کانفرنس کا افتتاح کریں گے جس میں 150 ملکوں کے 1500 کاروباری افراد کی شرکت متوقع ہے۔ شرکا میں نصف سے زائد کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہوگی۔