لوگوں اور مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ بھارت کے تقریباً 18 کروڑ مسلمان کسی ایک ہی جماعت کو ووٹ دیں۔
دہلی —
بھارت میں انتخابات کے پہلے مرحلے کے آغاز سے قبل دہلی کے جامعہ مسجد کے امام سید احمد بخاری نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ کانگریس کو ووٹ دیں۔
"میں آج لوک سبھا انتخابات 2014ء کے لیے کانگریس کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔"
اس اپیل کو سن کر دو باتیں لگتی ہیں پہلی یہ کہ شاہی امام ملک بھر کے مسلمانوں کے رہنما ہیں اور دوسری یہ کہ بھارت کے تقریباً 18 کروڑ مسلمانوں کے مسائل ایک سے ہیں۔
لیکن اس کی حقیقت جاننے کے لیے جامعہ مسجد کے آس پاس کے لوگوں سے جب پوچھا تو اُنھوں اپنی اپنی آرا کا اظہار مختلف انداز میں کیا۔
محمد انیس جامعہ مسجد سے کچھ ہی دور پھلوں کی ریڑھی لگاتے ہیں اُن کا کہنا تھا کہ وہ ’’اپنے حساب سے ووٹ ڈالیں گے جو صحیح سمجھیں گے اس کو ہی ووٹ ڈالا جائے گا۔‘‘
ایک اور شہری کا کہنا تھا کہ ’’ایسا ہے کچھ نہ کہیں تو زیادہ بہتر ہے۔۔۔۔۔ ہمارے امام صاحب نے اعلان کیا ہے ٹھیک ہے کہ ہم لوگ امام صاحب کے ساتھ ہیں جو اچھا امیدوار ہو گا اس کو ووٹ دیں گے۔‘‘
تو جب جامعہ مسجد کے آس پاس کے لوگوں پر ہی شاہی امام کی اپیل کا کوئی اثر نہیں ہے اور وہ امام صاحب کی اپیل کی بجائے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹھیک اُمیدوار کو ووٹ دیں گے تو کیا بھارت کی سطح پر کوئی ’’مسلمان ووٹ‘‘ جیسی چیز ہے۔
یشونت دیش مکھ ایک سروے کمپنی ’سی ووٹر‘ کے بانی ہیں اُن کا کہنا تھا کہ ’’تقریباً ایسی 35 کے آس پاس نشستیں ہیں جہاں پر 30 فیصد سے بھی زیادہ ووٹ مسلمانوں کے ہیں۔ 150 سیٹیں ایسی ہوں گی جہاں پر 10 سے 20 فیصد مسلم ووٹ ہوں گے تو 543 جو بھارت میں سیٹیں ہیں اس میں سے قریب 200 سیٹیں تو ایسی ہیں جہاں پر ان کا اچھا خاصا کردار ہے ۔۔۔۔ اس کا مطلب قطعی یہ نہیں ہوتا کہ پورے ہندوستان میں جتنے بھی مسلمان ہیں سب ایک ساتھ بیٹھ کر ایک ہی دن میں سب طے کرتے ہیں ایسا نہیں ہے۔‘‘
تو آخر پورے بھارت میں پھیلے مسلمان کیا دیکھ کر ووٹ کرتے ہیں۔
یشونت کا کہنا تھا کہ ’’پورے بھارت میں ہم نے سروے میں ایک سوال پوچھا کہ بھائی آپ کب فیصلہ کرتے ہیں کہ کس پارٹی کو ووٹ دینا ہے اور بہت مزے والی بات یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا جو جواب ہے وہ تقریباً تقریباً برابر ہے کہ وہ کسی حکمت عملی کے تحت ووٹ نہیں دیتے۔‘‘
اگر پورے بھارت میں مسلمان ووٹ کسی ایک طرف نہیں جاتا تو وہ کینڈیڈیٹ اور پارٹی کس بنیاد پر چلتے ہیں۔
دہلی کے ایک تحقیقاتی ادارے کے منسلک ہلال احمد کہتے ہیں ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ ’’ہم نے جو 2005ء میں سروے کیا تھا تو ہم نے پوچھا کہ ووٹ دیتے وقت آپ کیا سوچتے ہیں تو 96 فیصد نے بتایا کہ انھوں نے بتایا کہ ہم جو نے غریبی اور بے روزگاری پر ووٹنگ کی۔‘‘
بھارت کے مسلمان کتنے الگ الگ طریقے سے ووٹ ڈالتے ہیں اس کی ایک مثال ہے گجرات۔ یشونت دیش مکھ نے بتایا کہ ’’مجھے یاد ہے کہ جب ہم گجرات میں جائزہ لے رہے تھے تو مجھے یاد ہے کہ تقریباً ہر چوتھا مسلمان جو گجرات کا تھا اس نے نریندر مودی کو ووٹ دیا تھا۔‘‘
ہلال احمد کا کہنا ہے کہ گجرات میں کئی مسلمانوں کا بی جے پی کو ووٹ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پورا معاملہ کتنا پیچیدہ ہے۔
’’مسلمان نے اگر بی جے پی کو ووٹ دیا تو اس نے مودی کو ووٹ نہیں دیا اس نے اپنے علاقے میں ہونے والے چناؤ میں ایک خاص اُمیدوار کو ووٹ دیا۔‘‘
جہاں تک یہ بات ہے کہ پورے بھارت کے مسلمان ایک ہی طریقے سے ووٹ نہیں کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس کا جائزہ ریاست کی سطح پر لیں تو اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔
"میں آج لوک سبھا انتخابات 2014ء کے لیے کانگریس کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔"
اس اپیل کو سن کر دو باتیں لگتی ہیں پہلی یہ کہ شاہی امام ملک بھر کے مسلمانوں کے رہنما ہیں اور دوسری یہ کہ بھارت کے تقریباً 18 کروڑ مسلمانوں کے مسائل ایک سے ہیں۔
لیکن اس کی حقیقت جاننے کے لیے جامعہ مسجد کے آس پاس کے لوگوں سے جب پوچھا تو اُنھوں اپنی اپنی آرا کا اظہار مختلف انداز میں کیا۔
محمد انیس جامعہ مسجد سے کچھ ہی دور پھلوں کی ریڑھی لگاتے ہیں اُن کا کہنا تھا کہ وہ ’’اپنے حساب سے ووٹ ڈالیں گے جو صحیح سمجھیں گے اس کو ہی ووٹ ڈالا جائے گا۔‘‘
ایک اور شہری کا کہنا تھا کہ ’’ایسا ہے کچھ نہ کہیں تو زیادہ بہتر ہے۔۔۔۔۔ ہمارے امام صاحب نے اعلان کیا ہے ٹھیک ہے کہ ہم لوگ امام صاحب کے ساتھ ہیں جو اچھا امیدوار ہو گا اس کو ووٹ دیں گے۔‘‘
تو جب جامعہ مسجد کے آس پاس کے لوگوں پر ہی شاہی امام کی اپیل کا کوئی اثر نہیں ہے اور وہ امام صاحب کی اپیل کی بجائے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹھیک اُمیدوار کو ووٹ دیں گے تو کیا بھارت کی سطح پر کوئی ’’مسلمان ووٹ‘‘ جیسی چیز ہے۔
یشونت دیش مکھ ایک سروے کمپنی ’سی ووٹر‘ کے بانی ہیں اُن کا کہنا تھا کہ ’’تقریباً ایسی 35 کے آس پاس نشستیں ہیں جہاں پر 30 فیصد سے بھی زیادہ ووٹ مسلمانوں کے ہیں۔ 150 سیٹیں ایسی ہوں گی جہاں پر 10 سے 20 فیصد مسلم ووٹ ہوں گے تو 543 جو بھارت میں سیٹیں ہیں اس میں سے قریب 200 سیٹیں تو ایسی ہیں جہاں پر ان کا اچھا خاصا کردار ہے ۔۔۔۔ اس کا مطلب قطعی یہ نہیں ہوتا کہ پورے ہندوستان میں جتنے بھی مسلمان ہیں سب ایک ساتھ بیٹھ کر ایک ہی دن میں سب طے کرتے ہیں ایسا نہیں ہے۔‘‘
تو آخر پورے بھارت میں پھیلے مسلمان کیا دیکھ کر ووٹ کرتے ہیں۔
یشونت کا کہنا تھا کہ ’’پورے بھارت میں ہم نے سروے میں ایک سوال پوچھا کہ بھائی آپ کب فیصلہ کرتے ہیں کہ کس پارٹی کو ووٹ دینا ہے اور بہت مزے والی بات یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا جو جواب ہے وہ تقریباً تقریباً برابر ہے کہ وہ کسی حکمت عملی کے تحت ووٹ نہیں دیتے۔‘‘
اگر پورے بھارت میں مسلمان ووٹ کسی ایک طرف نہیں جاتا تو وہ کینڈیڈیٹ اور پارٹی کس بنیاد پر چلتے ہیں۔
دہلی کے ایک تحقیقاتی ادارے کے منسلک ہلال احمد کہتے ہیں ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ ’’ہم نے جو 2005ء میں سروے کیا تھا تو ہم نے پوچھا کہ ووٹ دیتے وقت آپ کیا سوچتے ہیں تو 96 فیصد نے بتایا کہ انھوں نے بتایا کہ ہم جو نے غریبی اور بے روزگاری پر ووٹنگ کی۔‘‘
بھارت کے مسلمان کتنے الگ الگ طریقے سے ووٹ ڈالتے ہیں اس کی ایک مثال ہے گجرات۔ یشونت دیش مکھ نے بتایا کہ ’’مجھے یاد ہے کہ جب ہم گجرات میں جائزہ لے رہے تھے تو مجھے یاد ہے کہ تقریباً ہر چوتھا مسلمان جو گجرات کا تھا اس نے نریندر مودی کو ووٹ دیا تھا۔‘‘
ہلال احمد کا کہنا ہے کہ گجرات میں کئی مسلمانوں کا بی جے پی کو ووٹ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پورا معاملہ کتنا پیچیدہ ہے۔
’’مسلمان نے اگر بی جے پی کو ووٹ دیا تو اس نے مودی کو ووٹ نہیں دیا اس نے اپنے علاقے میں ہونے والے چناؤ میں ایک خاص اُمیدوار کو ووٹ دیا۔‘‘
جہاں تک یہ بات ہے کہ پورے بھارت کے مسلمان ایک ہی طریقے سے ووٹ نہیں کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس کا جائزہ ریاست کی سطح پر لیں تو اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔