فیس بک کے حالیہ اعلان کے بعد کہ اس نے کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینکڑوں پیجز کو بلاک کر دیا ہے, ساری توجہ اب سوشل میڈیا پر جعلی اور من گھڑت خبروں کے طوفان کی جانب مبذول ہو گئی ہے کیوں کہ 90 کروڑ ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا اب یہ سب سے بڑا میدان بن گیا ہے۔
ہندوستان کے الیکشن 11 اپریل سے شروع ہو رہے ہیں۔
امریکی ادارے پائنٹر انسٹی ٹیوٹ میں بین الاقوامی فیکٹ چیکنگ نیٹ ورک میں کام کرنے والی بنگلور کی کانچن کور کا کہنا ہے کہ ’’یہ بہت ہی بڑا میدان ہے، ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا سوشل میڈیا پر آ گئی ہے۔’’
جو لوگ سوشل میڈیا کو قریب سے دیکھ رہے ہیں ان کے مطابق فیس بک کی جانب سے کیے گئے اقدامات سمندر میں تنکے کی مانند ہیں کیوںکہ جھوٹی اور من گھڑت خبریں جس تیزی سے لائی جاتی ہیں اس سے کہیں زیادہ تیزی سے انہیں پڑھا اور شیئر کیا جاتا ہے۔
ہندوستان کے سائبر ماہرین کے مطابق زیادہ بڑا مسئلہ بیرونی مداخلت کی بجائے سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف جھوٹ کا بازار گرم کرنا ہے۔
سوشل میڈیا پر سیاسی پیغامات، میمز اور ویڈیوز پھیلانے کے لئے پیسے کا استعمال اپنے عروج پر ہے۔ اس مقصد کے لئے سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں جو فیس بک پر موجود 30 کروڑ اور واٹس ایپ پر 24 کروڑ ہندوستانیوں کو اپنے پراپیگنڈے کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہ انتخابات دونوں پارٹیوں کے لئے بہت اہم ہیں کیوں کہ بی جے پی طاقت میں رہنے کی پوری کوشش کر رہی ہے جب کہ کانگریس اقتدار میں دوبارہ آنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔
فیکٹ چینگ ویب سائٹ بوم کے سربراہ جینسی جیکب کے مطابق سب سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ ’’کسی بھی سیاسی لیڈر کے بارے میں پرانی ویڈیوز اور تصویروں کا غلط استعمال کر کے اسے ملک کے لئے برا ثابت کیا جا رہا ہے اور اکثر لوگ ان ویڈیوز کی حقیقت جاننے کے لئے تحقیق نہیں کرتے اور ان کے نزدیک یہی سچ ہوتا ہے۔‘‘
بوم فیس بک کے ساتھ مل کر جھوٹی اور من گھڑت خبروں کے خلاف کام کر رہا ہے۔
فیکٹ چیکرز کے مطابق کشمیر میں خود کش دھماکے کے بعد جب پاکستان اور ہندوستان میں کشیدگی بہت زیادہ تھی تو فیک نیوز اور حب الوطنی پر مبنی ویڈیوز اور پیغامات اپنے عروج پر تھے۔
مثال کے طور پر ایک فیس بک صارف نے بی جے پی کے لیڈر امت شاہ سے منسوب ایک کال کی ریکارڈنگ شیئر کی جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’میں مانتا ہوں اس بات کو، کہ انتخابات جیتنے کے لئے ہمیں ایک جنگ کی ضرورت ہے۔’’
اس ریکارڈنگ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی جان بوجھ کر جنگ کرنا چاہتی ہے تاکہ انتخابات جیت سکے۔ یہ آڈیو امیت شاہ کے پرانے انٹرویوز کی آواز ملا کر بنائی گئی۔ اس ریکارڈنگ کو 50 لاکھ لوگوں نے سنا۔
اسی طرح کے ایک اور پیغام میں یہ خبر پھیلائی گئی کہ کانگریس کے ایک لیڈر نے دہشت گردی کرنے والے اور فوجیوں پر پتھر پھینکنے والے کشمیریوں کو ووٹ کے بدلے میں چھوڑنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ بھی ایک جھوٹا پیغام تھا۔
ایک پوسٹ میں نریندر مودی کو 50 سب سے ایماندار سیاست دانوں کی لسٹ میں دکھایا گیا اور ایک پوسٹ میں پریانکا گاندھی کو کراس پہنے ہوئے دکھایا گیا کہ وہ مسیحی ہیں۔
جھوٹی اور من گھڑت خبروں کو بے نقاب کرنے کی مشہور ویب سائٹ آلٹ نیوز کے بانی پراتھیک سنہا نے ایک ٹوئٹ کے جواب میں، جس میں راہول گاندھی کو احمق کہا گیا تھا، لکھا کہ یہ ٹوئٹ فیک اکاؤنٹ سے کیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ 2016 میں ایک کشتی کے حادثے میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس ٹوئٹ کے اکاؤنٹ میں پروفائل پکچر اسے رپورٹ کرنے والے آرٹیکل سے لی گئی ہے اور یہ اکاؤنٹ دو دن پہلے بنا ہے جب کہ اسے 2000 بار ری ٹوئٹ کیا گیا ہے۔
سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ جھوٹ سے گرم بازار کی وجہ سے کہیں مذہبی تشدد نہ پھوٹ پڑے۔
فیس بک نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ ‘‘ہم ٹیکنالوجی اور انسانی مدد سے جھوٹی خبروں کے خلاف بہت محنت سے کام کر رہے ہیں۔’’
اس سلسلے میں فیس بک نے سات سے زائد میڈیا گروپس اور فیکٹ چیکنگ اداروں کی مدد بھی حاصل کی ہے۔
منگل کو واٹس ایپ نے چیک پوائنٹ کے نام سے ایک ہیلپ لائن کھولی ہے تاکہ صارفین خبروں کی تصدیق کر سکیں۔
ڈیجیٹل رائٹس کے ایک کارکن نکھل پاوا کے مطابق یہ اچھے اقدامات ہیں مگر یہ بہت دیر سے کیے گئے ہیں اور یہ ناکافی ہیں۔
سائبر ماہرین کے مطابق سات فیکٹ چیکنگ ادارے اگر اوورٹائم پر بھی کام کریں تو بھی فیک نیوز جس طرح سے پھیلتی ہے اور جس تیزی سے پھیلتی ہے، ان کے پاس اسے روکنے کی استعداد نہیں ہے۔
کنچن کمار نے کہا کہ اگر کوئی خبر جھوٹی بھی ثابت ہو جائے تو کتنے لوگ فیکٹ چیکنگ ویب سائٹوں کو دیکھتے ہیں۔ ہم سب کے اپنے اپنے تعصبات ہوتے ہیں اور اگر ہم کسی خبر سے متفق ہیں تو ہم اسے پھیلاتے بھی ہیں۔
پاوا کے مطابق اس بات کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کا اثر ان انتخابات پر کتنا گہرا ہو گا۔ مگر یہ درست ہے کہ من گھڑت خبروں اور سیاسی طنز و مزاح کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔