بھارت کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کے خلاف ڈیڑھ سو سال پرانے ایک قانون کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
بھارت کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نےجمعرات کو متفقہ طور پر مذکورہ قانون کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سنایا۔
فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ دو بالغ افراد کے درمیان، چاہے وہ ہم جنس پرست ہی ہوں، باہمی رضامندی سے قائم کیے جانے والا جنسی تعلق غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
بھارت میں 'سیکشن 377' کے نام سے معروف ہم جنس پرستی کے خلاف قانون 1861ء برِ صغیر پر برطانوی راج کے دور میں بنایا گیا تھا جس میں "خلافِ فطرت اختلاط" کو ممنوع قرار دیتے ہوئے اس پر 10 سال تک قید کی سزا رکھی گئی تھی۔
بھارت کے ہم جنس پرست حلقے اس قانون کے خلاف گزشتہ کئی دہائیوں سے احتجاج کرتے رہے ہیں اور اس قانون کے خلاف عدالتی جنگ 1990ء کی دہائی سے جاری تھی۔
اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ نے 2009ء میں ملک میں ہم جنس پرستی کو جائز قراردے دیا تھاجس کے خلاف بعض مذہبی رہنماؤں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 2014ء میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مذکورہ قانون دوبارہ بحال کردیا تھاجس کے خلاف ہم جنس پرست تنظیموں کے نمائندوں نے اپیلیں دائر کی تھیں۔
جمعرات کو اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ 'سیکشن 377' بھارت کی ہم جنس پرست کمیونٹی کو ہراساں کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا تھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کے جنسی رجحان کی بنیاد پر اس کے ساتھی امتیازی برتاؤ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کی ریاستی سطح پر اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مذکورہ قانون کے خاتمے کے نتیجے میں بھار ت میں ہم جنس افراد کے خلاف باہم رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرنے پر قانونی کارروائی نہیں کی جاسکے گی۔
بھارت کی قدامت پسند حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی قانون کے خاتمے کی مخالفت کرتی آئی ہے۔
لیکن حکومت نے عدالتی فیصلے سے قبل کہا تھا کہ وہ اس قانون کے مستقبل کا فیصلہ عدالت کی صوابدید پر چھوڑتی ہے اور عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی اسے قبول کیا جائے گا۔
تاہم 'بی جے پی' کے بعض رہنماؤں نے خبردار کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج اس قانون کی دیگر شقوں کو چھیڑنے اور ہم جنس جوڑوں کو شادی کی اجازت دینے سے باز رہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عدالت کے باہر جمع ہم جنس پرست افراد اور ان کے حامیوں نے جشن منایا جب کہ بعض بڑے شہروں میں بھی ہم جنس پرستوں کی جانب سے جشن منائے جانے کی اطلاعات ہیں۔
بھارت کی ہندو، مسلم اور دیگر مذہبی تنظیمیں اس قانون کو برقرار رکھنے کی حمایت کرتی آئی ہیں اور امکان ہے کہ ان کی جانب سے اس عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔