تجارت میں اضافے کے لیے چین و بھارت کے مذاکرات

فائل

دونوں ممالک کے حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ عالمی اقتصادی صورتِ حال میں ایشیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی دونوں معیشتوں کے درمیان تعاون میں اضافہ ناگزیر ہے۔
چین اور بھارت نے ریلوے، توانائی، ماحولیاتی تحفظ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔

پیر کو دو طرفہ اقتصادی تعاون اور روابط میں اضافے کے لیے ہونے والے دوسرے 'اسٹریٹجک ڈائیلاگ' کے اختتام پر دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے ان معاہدوں پر دستخط کیے۔

مذاکرات میں دونوں ممالک نے باہمی دلچسپی کے معاملات– بشمول عالمی اقتصادی اور معاشی نظاموں میں اصلاحات اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق امور پر- ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے حکمتِ عملی ترتیب دینے پر اتفاق کیا۔

دونوں ممالک کے حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ عالمی اقتصادی صورتِ حال میں ایشیا کی دو سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں کے درمیان تعاون میں اضافہ ناگزیر ہے۔

مذاکرات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں بھارتی وفد کے سربراہ مونتک سنگھ آہلووالیہ نے چین کے ساتھ تجارت میں توازن لانے پر زور دیا۔

واضح رہے کہ دونوں ممالک کےدرمیان گزشتہ ایک دہائی کے دوران میں تجارت میں بہت اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ سال دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم 75 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہا۔ گو کہ اس تجارت کا توازن چین کے حق میں ہے لیکن چین کو ہونے والا تجارتی خسارہ بھی 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

بھارت چین کو زیادہ تر خام مال خصوصاً لوہا برآمد کرتا ہے جب کہ چین میں تیار کردہ سستی مصنوعات بھارتی بازاروں میں چھائی ہوئی ہیں۔

گوکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کے باوجود سرحدوں کے تعین پر چلے آرہے عشروں پرانے اختلافات بھی بدستور برقرار ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت ہمالیہ کے علاقے میں چین کے زیرِ قبضہ 16 ہزار کلومیٹر سے زائد رقبے کی ملکیت کا دعویدار ہے جب کہ چین اپنے علاقے تبت سے متصل بھارتی ریاست ہماچل پردیش پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات کے حل کے لیے اب تک مذاکرات کے 15 دور ہوچکے ہیں تاہم ان میں سے کوئی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکا۔