لداخ کی وادیٔ گلوان میں چینی فوجیوں کے ہاتھوں 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت کے مختلف علاقوں میں چین کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ نئی دہلی میں چینی سفارت خانے کے باہر احتجاج کیا گیا اور اس دوران چین کا پرچم اور صدر شی جن پنگ کا پُتلا بھی جلایا گیا۔
بھارت کے مختلف شہروں میں چین کے خلاف احتجاج کے دوران حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ تجارتی تعلق ختم کرے۔ مظاہرین عوام سے بھی اپیل کر رہے ہیں کہ وہ چینی مصنوعات کا استعمال بند کر دیں۔
زیادہ تر دائیں بازو کی تنظیمیں اور ان سے منسلک افراد یہ مطالبہ شدت سے کر رہے ہیں۔ ہندو احیا پسند جماعت 'راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی اقتصادی امور کی تنظیم 'سودیشی جاگرن منچ' بھی حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ چین کی کمپنیوں پر پابندی عائد کی جائے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کے محکمۂ ٹیلی مواصلات نے ٹیلی فون محکموں بھارت سنچار نگم لمٹیڈ (بی ایس این ایل) اور مہا نگر سنچار نگم لمٹیڈ (ایم ٹی این ایل) سے کہا ہے کہ وہ 'فور جی انٹرنیٹ' کی جدید کاری میں چینی آلات کا استعمال بند کریں اور اندرونِ ملک تیار ہونے والے آلات استعمال کریں۔
مقامی میڈیا پر یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ بھارتی ریلوے نے ایک چینی کمپنی 'بیجنگ نیشنل ریلوے' کے ساتھ کئی سال قبل کیا جانے والا ایک معاہدہ ختم کر دیا ہے۔ اس کمپنی کو اتر پردیش میں تقریباً 450 کلو میٹر کے کاریڈور پر ریلوے سگنلز نصب کرنے کا کام دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ادھر ایک مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے نے چائنیز فوڈ فروخت کرنے والے ریستورانوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس صورتِ حال پر اقتصادی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ چوں کہ چین، بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور بھارت کی مارکیٹ اور معیشت کا بہت زیادہ انحصار چینی سرمایہ کاری پر ہے۔ اس لیے چین سے تجارتی تعلق منقطع کرنا ناممکن ہے۔
ماہرین کے خیال میں چینی کمپنیوں اور مصنوعات کے بائیکاٹ کے مطالبات وقتی جذبات کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ اس سے قبل بھی کئی بار چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیلیں کی جا چکی ہیں لیکن بھارتی بازاروں میں چینی مصنوعات بھری ہوئی ہیں۔
اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر امیر اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین اور بھارت میں سے کوئی بھی ملک تجارت کے سلسلے میں خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ اگر بھارت کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے تو اسے زبردست نقصان ہو گا۔
ان کے مطابق موجودہ صورتِ حال کا دونوں ملکوں کی باہمی تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ڈاکٹر امیر اللہ خان نے کہا کہ بھارت چین سے بہت زیادہ مصنوعات درآمد کرتا ہے جس کی وجہ سے بھارت کا تجارتی خسارہ بھی بہت بڑھا ہوا ہے۔ اگر وہ درآمد بند ہو گئی تو بھارت کو کسی اور ملک سے مصنوعات منگوانی ہوں گی جو اس صورتِ حال میں بہت مشکل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول بھارت فارما سیوٹیکلز، نیوکلئیر ری ایکٹر اور الیکٹریکل مشینری اور دیگر کئی شعبوں کی سب سے زیادہ چیزیں چین سے درآمد کرتا ہے۔ اگر تجارت روکنے کا کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو ان صنعتوں کو بہت زیادہ نقصان ہو گا۔
امیر اللہ خان نے کہا کہ دونوں ملکوں کا تجارتی تعلق تیزی سے مزید آگے بڑھنا چاہیے۔ دونوں ملکوں میں جو لڑائی ہے، اسے سیاسی و سفارتی سطحوں پر رکھیں۔ تجارت اور سفارت کو ایک دوسرے سے ملانا درست نہیں۔
امیر اللہ خان کہتے ہیں کہ بھارت کے لیے چین بہت بڑا اور چین کے لیے بھارت بہت چھوٹا تجارتی شراکت دار ہے۔ لہٰذا حکومت کو کسی بھی قسم کے دباؤ میں نہیں آنا چاہیے اور کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔
دوسری جانب بھارت میں تاجروں کی ایک تنظیم 'کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز' نے چین میں تیار ہونے والی 500 سے زائد مصنوعات کی ایک فہرست جاری کی ہے اور لوگوں سے ان کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔
ان مصنوعات میں کھلونے، کپڑے، ملبوسات، روز مرہ کے استعمال کی چیزیں، باورچی خانے میں استعمال کی چیزیں، فرنیچر، ہارڈویئر، جوتے، ہینڈ بیگ، سفری اشیا، الیکٹرونکس، کاسمیٹکس، گھڑیاں، زیورات، اسٹیشنری، کاغذ، ہیلتھ پروڈکٹس اور آٹو موبائل پارٹس وغیرہ شامل ہیں۔
تاجر تنظیم کے جنرل سیکریٹری پروین کھنڈیلوال نے کہا ہے کہ ان چیزوں کی تیاری کے لیے خصوصی ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ چیزیں باآسانی سے بھارت میں بھی تیار کی جاسکتی ہیں۔ ان مصنوعات کے بائیکاٹ سے بھارت کا چین پر انحصار کم ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت میں چینی سرمایہ کاری کئی راستوں سے ہو رہی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس وقت بھارت میں چین کی براہ راست سرمایہ کاری کا حجم 2.34 ارب ڈالر ہے۔ لیکن بعض تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ یہ حجم آٹھ ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ سیاحت کے ذریعے بھی چین سے سالانہ 55 کروڑ ڈالرز بھارت آتے ہیں۔
چین کی کمپنیوں علی بابا، ژیاؤمی، ٹینسیٹ اور کئی دیگر کمپنیوں نے بھارت کے متعدد نئے کاروباروں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ جن بھارتی کمپنیوں میں چین نے سرمایہ کاری کی ہے، ان میں 'پے ٹی ایم'، 'اولا'، 'اسنیپ ڈیل' اور 'سویگی' قابل ذکر ہیں۔
حکومتی اعداد کے مطابق بھارت میں ٹیلی کام آلات کی مارکیٹ کا حجم 120 ارب روپے ہے جس میں چینی کمپنیوں کی حصہ داری 25 فی صد ہے۔
تقریباً 250 ارب روپے کی ٹیلی ویژن مارکیٹ میں چین کا حصہ لگ بھگ 45 فی صد ہے۔ 500 ارب روپے کی 'ہوم اپلائنسز' مارکیٹ میں چین کی حصہ داری 10 سے 12فی صد، 57 ارب ڈالرز کی آٹو موبائل انڈسٹری میں چین کی شراکت داری 26 فی صد ہے۔
بھارت میں سولر پاور مارکیٹ کا حجم 37 ہزار 916 میگا واٹ ہے جس میں چین کی کمپنیوں کا 90 فی صد حصہ ہے۔ ملک میں 45 کروڑ اسمارٹ فون صارفین میں سے 66 فی صد چینی ایپلی کیشنز استعمال کرتے ہیں۔
بھارت کی اسٹیل مارکیٹ 108.5 میٹرک ٹن کی ہے۔ اس میں چین کا شیئر 18 سے 20 فیصد جب کہ دو ارب ڈالرز کے فارما سیکٹر میں بھی چینی کمپنیوں کی 60 فی صد حصہ داری ہے۔
اقتصادی امور کے ماہرین ان اعداد و شمار کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اگر بھارت نے کوئی انتہائی قدم اٹھایا تو اسے بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔