چینی وزیراعظم کا دورہ بھارت: سرحدی تنازع کا حل اور تجارت کا فروغ سرِ فہرست

چین کا کہنا ہے کہ اُن کے نئے وزیر اعظم کی طرف سے سب سے پہلے بھارت کا دورہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ چین دونوں ملکوں کےتعلقات کو کتنی اہمیت دیتا ہے
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور دورے پر آئے ہوئے اُن کے چینی ہم منصب نے اتوار کے دِٕن دنیا کے اِن دو سب سے بڑی آبادیوں والے ملکوں کے درمیان عشروں پرانے سرحدی تنازع کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں بات چیت کی۔

وزیر اعظم لِی کے کیانگ سہ روزہ دورے پر بھارت پہنچے ہیں، جِس سے دو ہفتے قبل مغربی ہمالیہ کے متنازعہ علاقے میں فوجی کشیدگی کے معاملے کو پُرامن طور پر دور کیا گیا تھا، جس سے قبل بھارت بھر میں اِس معاملے پر عوامی سطح پر آواز اٹھائی گئی تھی۔

یہ تنازع اُس وقت شروع ہوا جب لداخ کے علاقے میں چینی فوج کے داخل ہونے پر بھارت نے احتجاج کی آواز بلند کی۔ یہ تناؤ اُس وقت رُکا جب طرفین نے سرحد کی ’جوں کی توں‘ حالت بحال کی۔

اُس وقت سے اب تک، دونوں ممالک نے ہفاہمتی انداز اپنایا ہوا ہے، جِس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ غیر واضح سرحد کے معاملے کو طے کرنے کے عمل میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ 1990ء کی دہائی سے اب تک اِس معاملے پر ہونے والی بات چیت کے کئی ایک دور بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔

چین کا کہنا ہے کہ اُن کے نئے وزیر اعظم کی طرف سے سب سے پہلے بھارت کا دورہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ چین دونوں ملکوں کےتعلقات کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔

لِی نے کہا کہ چین بھارت کو ایک اہم ساجھے دار سمجھتا ہے، اور اِس امید کا اظہار کیا کہ اُن کے دورے کے نتیجے میں، تعاون پر مبنی پارٹنرشپ کے حوالے سے ایک نیا ولولہ پیدا ہوگا۔

حالانکہ سرحدی تنازعہ توقعات سے زیادہ نمایاں نظر آرہا ہے، لیکن دورے کے دوران دو بڑے، تیزی سے فروغ پانے والی ایشیائی معیشتوں کے مالک ملکوں کےدرمیان بڑھتے ہوئے رشتوں پر توجہ دینے کے معاملے کو کلیدی حیثیت حاصل رہے گی۔

وزیر اعظم، لِی کے ہمراہ ایک بڑا کاروباری وفد دورے پر آیا ہوا ہے۔

یہ وفد ممبئی کے مالی مرکز کا دورہ کرے گا، جہاں بھارتی وزیر اعظم بھارت کے اعلیٰ منتظمیں کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ اور وہ بھارت کی ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کی سب سے بڑی کمپنی، ’ٹاٹا کنسلٹ ینسی سروسز‘ کا بھی دورہ کریں گے۔

چین، بھارت کا سب سے بڑا ’تجارتی پارٹنر‘ ہے۔