بھارت چین سے مضبوط اور وسیع تر تعاون کا خواہش مند

بھارت نے کہاہے کہ چین کے ساتھ اس کا تعاون مزید مضبوط اور وسیع تر ہونے کی ضرورت ہے ۔ تبت کے شورش زدہ حالات اور عالمی طاقتوں کے درمیان عشروں کے اختلافات کے تناظر میں اعلی سطح کےمذاکرات کے موقع پر نئی دہلی نے ان یقین بیجنگ کے ساتھ اپنے مذاکرات جاری رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔

بھارت کے خارجہ امور کے وزیر ایس ایم کرشنا نے دورے پر آئے ہوئے اپنے چینی ہم منصب یانگ جی چی کے ساتھ جمعرات کے روز اپنے مذاکرات سمیٹتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان اہم تعاون کی اپنی شراکت داری کے فروغ پر زور دیا۔ ان کا کہناتھاکہ اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کو مزید مستحکم ، وسیع تر اور مزید با معنی ہونا چاہیے

چین کے عہدے دار نے مذاکرات کے بعد کسی پبلک تبصرے سے گریز کیا جیسا کہ ایسے حالات میں فی الواقع ہوتا ہے تاہم مسٹر کرشنا نے کہا کہ مذاکرات تفصیلی تھے اور یہ کوئی بھی ایسا موضوع باقی نہیں رہا جس پر بات نہ ہوئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ چین اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے دوران ہونے والے ہر ممکنہ موضوع پر بات ہوئی اور ہم ایک دوسرے کا موقف سمجھ گئے ہیں ۔

مسٹر کرشنانے کہا کہ بھارتی سیٹلائٹ ڈیٹا سے تصدیق ہوتی ہے کہ چین کسی ایسی سر گرمی میں مصروف نہیں ہے جس سےمستقبل میں بھارت کو پانی کی فراہمی کو کوئی خطرہ لاحق ہو ۔
پانی کے ذرائع دونوں پڑوسیوں کے درمیان نئی اور پرانی چپقلشوں کی فہرست میں صرف ایک مسئلہ ہے ۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی جانب سےشام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کے اقدامات کی حمایت کر کے چین کے موقف سے اختلاف کیا ہے ۔ اور کئی عشروں سے وہ تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ اور تبت کی ایک منتخب انتظامیہ کی جسے بیجنگ علیحدگی پسند کہتا ہے ، میزبانی کر رہا ہے ۔ یہ مسئلہ حالیہ مہینوں میں خاص طور پر حساس شکل اختیار کر گیا جب چین کے کنٹرول کے تبت میں مظاہروں اور خود سوزی کے واقعات میں اضافہ ہوا ۔
چین نے بھارت کو انتباہ کیا ہے کہ وہ جنوبی چین کے سمندر کی سرحد پر واقع ملکوں کے ساتھ تیل کی تلاش کے معاہدے ختم کر ے کئی عشروں سے بیجنگ بھار ت کی ایک پوری ریاست ارونا پردیش کا بھی دعوے دار ہے۔