چین اور بھارت کا سرحدی تنازعات افہام و تفہیم سے حل کرنے پر اتفاق

(فائل فوٹو)

بھارت اور چین نے کہا ہے کہ وہ سرحدی تنازع کو طول دینے کے بجائے افہام و تفہم سے معاملات حل کرنا چاہتے ہیں۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج موکنڈ نراوانے کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج نے سرحد پر ہمیشہ امن و استحکام کو برقرار رکھا ہے۔

البتہ اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کی حد بندی کا تنازع اب بھی حل طلب ہے۔

چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت کو کوئی بھی ایسا قدم نہیں اُٹھانا چاہیے، جس سے صورتِ حال کشیدہ ہو۔

خیال رہے کہ چند روز قبل بھارت کی مشرقی ریاست سکم میں چین اور بھارت کی مشترکہ سرحد پر دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کئی جوان زخمی ہو گئے تھے۔

دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان پہلے پانچ مئی کو پینگانگ لیک کے نزدیک مشرقی لداخ میں جھڑپ ہوئی۔ اس کے بعد نو مئی کو شمالی سکم میں جھڑپ ہوئی۔

دونوں ملکوں کے فوجیوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کے علاوہ ہاتھا پائی بھی کی۔

SEE ALSO: چین نے غیر قانونی طور پر بھارتی علاقے پر قبضہ کیا، بھارتی وزارت خارجہ

ڈوکلام کے علاقے میں 2017 میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان 73 روز تک جاری کشیدگی کے بعد یہ پہلا واقعہ تھا۔

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے بقول چین کی کوشش رہی ہے کہ سرحد پر کسی بھی قسم کے ٹکراؤ سے گریز کیا جائے۔

ترجمان کے مطابق دونوں ملکوں میں سرحدی تنازع پر سفارتی سطح پر رابطہ قائم ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے ویڈیو پریس کانفرنس میں کہا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم ماضی میں ہونے والی ملاقاتوں میں سرحدی کشیدگی ختم کرنے پر زور دے چکے ہیں۔

انوراگ سریواستو نے بتایا کہ 2018 میں چین کے شہر ووہان اور 2019 میں چینی صدر کے دورہ بھارت کے دوران بھی دونوں رہنماؤں نے سرحدی معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

انوراگ سری واستو نے کہا کہ باہمی تعلقات اور مجموعی ترقی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔

بھارت کے آرمی چیف اور وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ سرحد کی حد بندی کے معاملے پر دونوں ملکوں کا الگ الگ موقف ہے۔ لہذٰا یہ سرحدی تنازع برقرار ہے۔

بھارتی آرمی چیف کے بقول مقامی سطح پر بات چیت کے بعد جھڑپوں کے بعد معاملہ رفع دفع ہو گیا تھا۔

انوراگ سری واستو نے کہا کہ اگر چین اور بھارت سرحدی حد بندی پر اختلافات دور کر لیں تو ایسے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔ اُن کے بقول ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ایک میکنزم پہلے سے ہی موجود ہے۔

بھارتی آرمی چیف نروانے نے کہا کہ جھڑپ کے دونوں واقعات کا تعلقات عالمی یا مقامی سرگرمیوں سے نہیں ہے۔

اُن کے بقول بھارت شمالی سرحد پر ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری رکھے ہوئے۔ سڑکوں کی تعمیر بھی جاری ہے تاکہ ان علاقوں تک رسائی ممکن بنائی جا سکے۔

بھارت کے سینئر تجزیہ کار قمر آغا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس سے لڑ رہی ہے اور کوئی بھی ملک کسی بھی قسم کی کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اُن کے بقول بھارت اور چین بھی موجودہ حالات میں کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتے۔ قمر آغا کہتے ہیں کہ چینی افواج کا رویہ ہمیشہ جارحانہ رہا ہے۔ نہ صرف بھارت کے ساتھ بلکہ دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی۔

ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں میں اس قسم کے واقعات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سرحد کے بارے میں دونوں کا الگ الگ موقف ہے۔ پہلی بار ایسا ٹکراؤ نہیں ہوا بلکہ کئی بار ہو چکا ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ گولی نہیں چلی۔

قمر آغا کے مطابق دونوں ملکوں کے مابین ایک میکینزم قائم ہے۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہیں سرحد کے اوپر ہی فلیگ میٹنگ ہو جاتی ہے۔

قمر آغا کا کہنا تھا کہ چین میں جب بھی کوئی اندرونی بحران پیدا ہوتا ہے، تو وہ قوم پرستی کا معاملہ اُٹھا کر سرحد پر اس قسم کی کارروائیاں کرتا ہے۔

اُن کے بقول چین میں لاک ڈاؤن کے باعث بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ فیکٹریاں بند ہیں۔ اسی لیے وہاں بے چینی پائی جاتی ہے۔ لیکن اچھا ہوا کہ دونوں ملکوں نے افہام و تفہیم سے معاملہ حل کر لیا۔

بھارت اور چین کے درمیان 1962 میں سرحدی تنازع پر جنگ بھی ہو چکی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد 3500 کلو میٹر طویل ہے۔ لیکن بہت سے علاقوں کی سرحدی حد بندی کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔