بھارت اور چین نے سرحدی کشیدگی کو کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے باوجود مبصرین کا خیال ہے کہ سرحدی تنازع اتنی جلدی اور آسانی سے حل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔
بھارت کے فوجی حکام نے منگل کو کہا کہ ہم باہمی طور پر متفق ہیں کہ اس کشیدگی کو کم کرنا چاہیے۔
اس سے پیشتر چین اور بھارت کے فوجی کمانڈروں کے درمیان طویل مذاکرات بھی ہوئے تھے جس کے دوران متنازع علاقوں کے کنٹرول سمیت دیگر امور پر بات چیت کی گئی تھی۔
بھارتی فوجی حکام نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ مشرقی لداخ کے تمام متنازع علاقوں کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی ہے اور تمام جگہوں پر ایک دوسرے سے متصادم نہ ہونے کے طریقۂ کار کو بھی طے کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ مشرقی لداخ کے تین اسٹرٹیجک مقامات پر چین اور بھارت کی فوجیں بڑی تعداد میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
دوسری جانب بیجنگ میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاو لی جیان نے بتایا کہ دونوں فریق صورتِ حال کو معمول پر لانے پر متفق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فریقین نے اپنا اپنا مؤقف صراحت سے بیان کیا جس کے دوران سرحدی انتظامات اور کنٹرول کے مسائل کے حل کے بارے میں اتفاق کیا ہے۔ دونوں ملک سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے پر بھی رضا مند ہیں۔
تاہم چین اور بھارت نے اس سلسلے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ لیکن ان بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان سرحد پر گزشتہ ہفتے جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی اسے کم کرنے کے لیے کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ البتہ نئی دہلی میں مبصرین کا کہنا ہے کہ ہمالیائی علاقوں کے بعض سرحدی مقامات کا تنازع کسی بھی وقت بھڑک سکتا ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان پچیس برس پہلے امن قائم کرنے کے لیے جو سرحدی معاہدہ ہوا تھا، پندرہ جون کو اس میں شگاف پڑ گیا ہے۔
نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں سیکیورٹی امور کے ماہر منوج جوشی کہتے ہیں کہ 1993 میں اعتماد سازی کے لیے جو اقدامات کیے گئے تھے ان کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔
اُن کے بقول، مذکورہ معاہدے کے تحت سرحدی علاقوں میں گشت کیا جاتا تھا اور امن قائم رکھنے کے لیے فوجی کمانڈرز باہم رابطے میں رہتے تھے۔ لیکن اب سب کچھ پارہ پارہ ہو گیا ہے۔
منوج جوشی کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اگلی بار جب گشت کرتے ہوئے چینی اور بھارتی فوجیوں کا آمنا سامنا ہو گا تو کیا ہو گا۔
SEE ALSO: چین نے بھارت کے کسی علاقے پر قبضہ نہیں کیا، مودی کا دعویٰمنوج جوشی کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے سامنے موجودہ کشیدگی کے مسئلے کو حل کرنے کا ایک کوہِ گراں ہے۔ ایکچوئل لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) میں گلوان وادی کی ملکیت کے اس نئے تنازع کے حل کی راہ نکالنا ایک مشکل اور صبر آزما امتحان ہے۔
چین گلوان وادی کو اپنا علاقہ قرار دے رہا ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں گزشتہ ہفتے دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی اور بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ چین نے بھارت کے کسی علاقے پر قبضہ نہیں کیا ہے جب کہ بھارتی حکام پہلے والی صورت حال بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بھارت کے وزیرِ خارجہ جے شنکر نے منگل کو ورچوئل کانفرنس کے ذریعے روس اور چین کے وزرائے خارجہ سے بات کی۔ انہوں نے بین الاقوامی قانون کے احترام اور فریقین کے جائز مفادات کو تسلیم کرنے پر بھی زور دیا۔
جے شنکر نے بتایا کہ اجلاس میں بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں مسلمہ اصولوں پر یقین اور اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ تاہم اس وقت سب سے بڑا چیلنج تسلیم شدہ حقیقتوں کا نہیں بلکہ ان پر مساوی طور سے عمل درآمد کا ہے۔