|
ویب ڈیسک۔۔۔بھارت نے لگ بھگ ایک درجن بنگلہ دیشیوں کو گرفتار کر لیا ہے جو اپنے ملک میں مہلک مظاہروں کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کا باعث بننے والے تشدد اور سیاسی افراتفری سے بچنے کے لیے سرحد پار کر کے بھارت جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ بات بھارت کی بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس ( بی ایس ایف) نے پیر کے روز بتائی۔
بی ایس ایف نے کہا کہ مزید سینکڑوں لوگ سرحد کے قریب بھارت میں داخل ہونے کی اجازت کا انتظار کر رہے ہیں۔
بی ایس ایف نے کہا کہ اتوار کے روز سے بنگلہ دیش کے 11 شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جو سرحد پار سے مغربی بنگال ریاست میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔
بی ایس ایف کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل امیت کمار تیاگی نے اے ایف پی کو بتایا، "کئی سو بنگلہ دیشی شہری اب بھی نو مینز لینڈ پر سرحد پار کرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔"
مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں ہندو سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں اور انہیں حسینہ کی پارٹی، عوامی لیگ کے لیے مستقل حمایت کا ایک مرکز سمجھا جاتا ہے۔
پانچ اگست کو حسینہ کے اچانک استعفے اور بھارت فرار ہونے کے نتیجے میں ان کی 15 سالہ آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد، ہندو گھرانوں، مندروں اور کاروباری اداروں پر حملوں کی متعدد رپورٹس سامنے آئیں۔
بنگلہ دیش تقریباً مکمل طور پر بھارت سے گھرا ہوا ہے، اس کی سرحد 4000 کلومیٹر سے زیادہ علاقے پر پھیلی ہوئی ہے، جس کے بڑے حصوں پر کوئی باڑ نہیں ہے۔
بھارتی ریاست آسام کی وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم، ایکس پر کہا، کہ بھارتی ریاست آسام میں بھی بنگلہ دیش کے چار شہریوں کو داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
'حفاظت اور سلامتی'
نئی دہلی نے حسینہ کے زوال پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے، جنہوں نے چین کے ساتھ مضبوط تعلقات برقرار رکھتے ہوئے بھارت کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک نازک توازن کو قائم رکھا۔
بنگلہ دیش کی 17 کروڑ کی آبادی میں سے تقریباً 8 فیصد ہندو ہیں۔
SEE ALSO: کیا بھارت بنگلہ دیش کی نئی حکومت کے ساتھ روابط بڑھائے گا؟مذہبی حقوق کے گروپس نے کہا ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش میں گزشتہ ہفتے کے دوران، مسیحوں اور بودھوں سمیت، اقلیتی کمیونیٹیز پر حملوں کے 200 سے زیادہ واقعات ریکارڈ کیے۔
اس کے بعد سے سیکیورٹی کی صورت حال میں نمایاں بہتری ہوئی ہے، اور پیر کو بنگلہ دیشی پولیس نے دارالحکومت ڈھاکہ میں گشت کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا جس کے نتیجے میں اس ہڑتال کا خاتمہ ہو گیا جس نے امن و امان میں ایک خلا پیدا کر دیا تھا۔
بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے جمعے کو کہا کہ بنگلہ دیش میں رہنے والے بھارتی شہریوں، ہندوؤں اور دوسری اقلیتی کمیونٹیز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
عبوری حکومت کے رہنما محمد یونس کی "مشاورتی کونسل" ڈی فیکٹو کابینہ نے، جو اس وقت ملک کا انتظام چلا رہی ہے، کہا ہے کہ اسے ہندوؤں اور دوسری اقلیتوں پر ہونے والے کچھ حملوں پر گہری تشویش ہے۔
اتوار کی رات اپنے پہلے سرکاری بیان میں، کابینہ نے کہا کہ وہ "اس طرح کے نفرت انگیز حملوں کے سد باب کے طریقے تلاش کرنے کے لیے کام کرے گی۔"
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔