بھارتی بینکوں میں لاکھوں ڈالر کی رشوت کی تحقیقات

.

بھارتی عہدے داروں کا کہناہے کہ وہ ان الزامات کے بعد کہ اعلیٰ عہدے داروں نے پرائیویٹ کمپنیوں کو بڑےقرضوں کی سہولت فراہم کرنے کے عوض لاکھوں ڈالر رشوت لی تھی، نجی شعبے میں کام کرنے والے کئی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ریکارڈ کی چھان بین کررہے ہیں۔

بھارت اپنے بینکاری کے شعبے میں لاکھوں ڈالر کی رشوت کے اسکنڈل کی تحقیقات کررہاہے۔ یہ اسکنڈل حالیہ ہفتوں میں بدعنوانی اور رشوت ستانی کے سلسلے میں منظر عام پر آنے والے واقعات میں تازہ ترین ہے۔

بھارتی عہدے داروں کا کہناہے کہ وہ ان الزامات کے بعد کہ اعلیٰ عہدے داروں نے پرائیویٹ کمپنیوں کو بڑےقرضوں کی سہولت فراہم کرنے کے عوض لاکھوں ڈالر رشوت لی تھی، نجی شعبے میں کام کرنے والے کئی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ریکارڈ کی چھان بین کررہے ہیں۔

رشوت ستانی کے اس بڑے اسکنڈل سے ممکنہ تعلق کی بنا پر جن 21 کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں، ان میں سے کئی ایک کا تعلق جائیداد کی خرید وفروخت کے شعبے سے ہے۔

مقامی میڈیا کے رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ حاصل کردہ کچھ قرضے طے شدہ شرائط کے مطابق استعمال کرنے کی بجائے اسٹاک مارکیٹ میں لگا دیے گئے ۔

حکومتی حکام اس اسکنڈل سے بھارت کے بینکاری شعبے کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کے الزالے کی کوشش کررہے ہیں۔ عہدے داروں کا کہناہے کہ مبینہ طورپر رشوت لینے کے واقعات افراد ی حرص کی نشان دہی کرتے ہیں نہ کہ اس نظام کی ناکامی کی۔

مرکزی بینک کے گورنر دواری سباراؤ کا کہنا ہے کہ حکام ضابطوں اور قوانین کو سخت تر بنانے کے لیے مسلسل کام کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یقیناً قرضوں کی تقسیم میں زیادہ شفافیت درکار ہے۔ ان کی تقسیم میں زیادہ احتسابی طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

بھارت کے پلاننگ کمشن کے چیئرمین مونتک سنگھ اہلووالیا نے نجی شعبے کے بینکنگ سیکٹر میں مبینہ طورپر رشوت ستانی پر نرم موقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ ہم جس بڑے پیمانے پر رشوت کی بات کررہے ہے ، وہ اتنی نہ ہو۔ جہاں تک بینکاری کے پورے نظام کا تعلق ہے، اس کے مقابلے میں یہ بہت ہی معمولی ہے۔

عالمی مالیاتی کساد بازاری کے دور میں بھارت کے مالیاتی نظام نےمغربی کے اپنے اکثر مدمقابل اداروں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔

تاہم حالیہ رپورٹوں سے بینکنگ سیکٹر کی ساکھ کو نقصان پہنچاہے۔ بھارت کے اہم اسٹاک انڈکس Sensex میں اس اسکنڈل کے نتیجے میں بینکاری کے شعبے نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سلسلے میں تحقیقات کی خبروں کے بعد بینکاری اور جائیداد کی خرید وفروخت سے وابستہ کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں سب سے زیادہ گری ہیں۔

بینکنگ کا اسکنڈل ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت رشوت اور بدعنوانی میں ملوث اپنے عہدے داروں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا اسکنڈل 2008ء میں ٹیلی مواصلات کی وزارت کی جانب سے کم نرخوں پر ٹیلی کام لائسنسوں کا اجرا تھا ، جس سے ملک کو تقریباً 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔