بھارت کی عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد ، رام مندر تنازع کے عدالتی فیصلے کی راہ ہموار کردی ہے۔ منگل کو ریاست اترپردیس کی علاقائی عدالت نے کئی برس پرانے اس فیصلے کے حوالے سے دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ فیصلے میں مزید تاخیر نہ کرتے ہوئے فی الفور اس مقدمے کا فیصلہ سنایا جائے۔
بھارتی شہر ایودھیہ میں 1992ء میں مشتعل انتہاپسندوں نے تاریخی بابری مسجد کو یہ کہتے ہوئے منہدم کردیا تھا کہ جس جگہ مسجد قائم تھی وہاں ہندووٴں کے دیوتا رام نے جنم لیا تھا اور یہ مسجد رام مندر کو گراکر تعمیر کی گئی تھی جبکہ مسلمانوں نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے مسجد کی اراضی کی مملکت مسلمانوں کو دیئے جانے کی غر ض سے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
یہ مقدمہ پچھلے اٹھارہ سال سے زیر سماعت ہے ۔ مقدمے کا فیصلہ گزشتہ ہفتے سنایا جانا تھا تاہم اس فیصلے کو رکوانے کے لئے عدالت میں درخواست دی گئی تھی اور موقف پیش کیا گیا تھا کہ فیصلہ امن و امان کی صورتحال کو خراب کرسکتا ہے لہذا اسے عارضی طور پر روک لیا جائے۔ عدالت نے یہ درخواست نمٹاتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ مقدمے کا فیصلہ بلاتاخیر سنادیا جائے۔ متعلقہ عدالت آئندہ جمعرات کو اس تاریخی مقدمے کا فیصلہ سنائے گی۔
واضح رہے کہ چھ دسمبر 1992ء کو مسجد کے انہدام کے بعد پورے بھارت میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں دوہزار افرادہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ تاریخی مسجد کواسی مقام پر دوبارہ بنانے کی اجازت دی جائے۔ دوسری جانب ہندووٴں کا کہنا ہے کہ مسجد رام جنم بھومی پر ناجائز طریقے سے مندر گراکر مسجد تعمیر کی گئی تھی۔
یہ مقدمہ بھارت کی تاریخ کا سب سے اہم اور حساس مقدمہ قرار دیا جارہا ہے ۔ مرکزی حکومت کو خدشہ تھا کہ اگر ایسے حالات میں جبکہ ملک میں تین اکتوبر سے کامن ویلتھ گیمز شروع ہونے جارہے ہیں اور دنیا بھر کا میڈیا ان کھیلوں کی کوریج کے لئے بھارت میں موجود ہے ، اگرعدالتی فیصلے پر دوبارہ فسادات چھڑ گئے تو یہ پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب ہوگا تاہم عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی ہے۔
اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایودھیہ میں سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے ، ساتھ ہی حکومت نے سیاسی رہنماوٴں سے امن و امان بنائے رکھنے کی اپیل کی ہے۔