بھارتی حکومت پاکستانی کشمیر سے ملحقہ اضلاع میں شہریوں کو مسلح کیوں کر رہی ہے؟

فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پاکستانی کشمیر سے ملحقہ اضلاع میں حکام کی جانب سے مقامی شہریوں کو اسلحہ و بارود تقسیم کرنے کا معاملہ بھارت میں موضوعِ بحث ہے۔ حکومت اپنے اس اقدام کا دفاع کر رہی ہے جب کہ اپوزیشن جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔

بھارتی کشمیر کے دو اضلاع راجوری اور پونچھ کے 1400 شہریوں کو گزشتہ تین ماہ کے دوران اسلحہ چلانے کی تربیت دی گئی ہے جب کہ 115 جدید ہلکے ہتھیار اور گولہ و بارود تقسیم کیا گیا ہے۔ ان دونوں اضلاع کی سرحدیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے ملتی ہیں۔

یہ فیصلہ رواں برس کے آغاز پر مشتبہ عسکریت پسندوں کی طرف سے راجوری کے ایک گاؤں پر کیے گئے ایک حملے کے بعد کیا گیا۔ اس حملے میں دو بچوں سمیت سات ہندو شہری ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے تھے۔

متاثرہ دیہاتیوں کی نقل مکانی کی دھمکی

حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز کی طرف سے علاقے میں کئی ہفتے تک جاری رہنے والے کومبنگ آپریشنز یا تلاشی کی کارروائیوں کے باوجود نہیں پکڑا جاسکا تھا۔

ان حملوں میں ہلاک او ر زخمی ہونے والوں کے اہلِ خانہ نے پیر کو سرمائی دارالحکومت جموں میں پریس کانفرنس کے دوراں حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ اگر مرتکب افراد کو فوری طور پر زندہ یا مردہ نہیں پکڑا جاتاہے تو وہ علاقے سے نقل مکانی کریں گے۔

بھارتی روزنامے 'ہندوستان ٹائمز' میں چھپی ایک رپورٹ کے مطابق اس واقعے کے بعد پونچھ اور راجوری میں بھیجی گئی بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آرپی ایف کی 19 کمپنیوں (تقریبا" 21 سو اہلکار) پر مشتمل کمک اب بھی ان اضلاع میں تعینات ہے۔

شہریوں کو سی آر پی ایف ہی اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دے رہی ہے جب کہ جموں و کشمیر پولیس نے تربیت یافتہ افراد میں خود کار بندوقیں اور گولہ بارود تقسیم کیا ہے۔

رپورٹ میں سی آر پی ایف کے ایک افسر جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ جن 1400شہریوں کو اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دی گئی ہے وہ حال ہی میں تشکیل دی گئی ویلج ڈیفنس گروپس (وی ڈی جیز) یا دیہات دفاعی گروہوں کے ممبران ہیں۔

افسر نے کہا کہ "یہ ایک مسلسل جاری عمل ہے۔ ہم نےاب تک 1400 شہریوں کو تربیت دی ہے جو وی ڈی جیز کا حصہ ہیں۔ تربیت یافتہ لوگ ریٹائرڈ فوجی اور پولیس افسران ہیں۔"ـ

افسر کے مطابق انہیں تربیت یہ یقینی بنانے کے لیے دی گئی ہےکہ وہ اپنے اپنے دیہات پر اچانک حملہ کیے جانے کے موقعے پر جوابی کارروائی کریں۔


اَپر ڈانگری میں کیا ہوا تھا؟

راجوری ضلع صدر مقام سے آٹھ کلو میٹر دوری پر واقع اَپر ڈانگری میں یکم جنوری کی شام مشتبہ عسکریت پسندوں کی فائرنگ میں چار ہندو شہری ہلاک اور دو عورتوں سمیت چھ دوسرے افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس کے اگلے روز ہدف بنائے گئے تین گھروں میں سے ایک میں ایک بوری میں رکھے گئے باروی موادکے پھٹنے سے دو کمسن بچے ہلاک اور پانچ شہری زخمی ہوئے تھے۔ زخمیوں میں شامل ایک نو عمر لڑکی بعد میں اسپتال میں چل بسی تھی۔

مقامی لوگوں نے یہ بھی کہا تھا کہ عسکریت پسندوں نے پہلے شہریوں کے آدھار (شناختی) کارڈ چیک کیے تھے اور یہ یقین ہو جانے پر کہ وہ سب کے سب ہندو ہیں انہوں نے اُن پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی۔

خونریزی کے ان واقعات کے خلاف راجوری سمیت جموں و کشمیر کے کئی علاقوں میں احتجاجی ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا تھا جب کہ سیاسی جماعتوں نے شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی تھی۔

اَپر ڈانگری کے ایک شہری بال کشن نے جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1990 کی دہائی کے دوران تشکیل دی گئی اسی طرح کی کمیٹیوں کے رکن رہ چکے تھے ایک تھری ناٹھ تھری بندوق سے حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ انہیں بعد میں حکومت نے بہادری کا مظاہرہ کرنے پر انعام و اکرام سے نوازا تھا۔

گاؤں کے سر پنچ دھیرج کمار نے بتایا تھا کہ "اس ڈیفنس کمیٹی کے واحد مسلح رکن نے دہشت گردوں پر ضرور فائر کھولا تھا لیکن اگر کمیٹی کے سبھی ممبران مسلح ہوتے تو وہ انہیں یہاں سے زندہ لوٹنے نہ دیتے اور ممکن تھا کہ معصوم شہریوں کو بچا لیا جاتا۔"

Your browser doesn’t support HTML5

بھارتی کشمیر میں پنڈت ایک بار پھر نقل مکانی کیوں کر رہے ہیں؟

مقامی افراد کو مشتبہ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے مسلح کرنے کا اعلان وزیرِ داخلہ امت شاہ نے 13 جنوری کو اپنے دورۂ جموں کے دوران کیا تھا۔

وزیرِ داخلہ نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے 360 ڈگری جال بچھایا جائے گا۔

حزبِ اختلاف کی مخالفت، خانہ جنگی پیدا ہونے کے خدشے کا اظہار

حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور قائدین نے ویلج دفاعی کمیٹیوں کے احیا کی مخالفت کی تھی اور وہ ہنوز اس بات پر مصّر ہیں کہ حکومت کا یہ فیصلہ جموں و کشمیر میں تشدد کو کم کرنے کے بجائے اسے بڑھاوا دینے کا موجب بن سکتا ہے بلکہ اس سے خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہونے کا بھی احتمال ہے۔

راجوری اور پونچھ کے بعض شہریوں اور سیاسی اور سماجی کارکنوں نے اس بات پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ نئی تشکیل شدہ وی ڈی جیز میں عمومی طور پر اقلیتی ہندو کمیونٹی کے افراد کو شامل کرکے انہیں ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی گئی ہے۔

ان حلقوں کا اعتراض ہے کہ ان علاقوں میں اکثریتی مسلم کمیونٹی کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

پونچھ کے ایک شہری محمد الطاف (نام تبدیل کیا گیا) نے کہا کہ "کئی ایسے علاقوں میں جہاں وی ڈی جیز کے لوگ متحرک نظر آ رہے ہیں مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کنبے خوف زدہ ہیں۔"

اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں مسلمانوں پر بھی حملے ہو چکے ہیں، لہذٰا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس سلسلے میں امتیاز یا تعصب نہ برتا جائے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا کشمیر کے ہندو مہاجرین کی واپسی ممکن ہے

اسلحے کے غلط استعمال کی شکایات

ماضی میں اس طرح کی کمیٹیوں کے کئی ارکان پر انہیں فراہم کیے گئے اسلحے کا غلط استعمال کرنے کے الزامات لگے تھے۔

حکومت نے 17 جون 2016 کو ریاستی قانون ساز اسمبلی میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کے ارکان کے خلاف 221مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 23 افراد کے خلاف قتل جب کہ سات کے خلاف جنسی زیادتی اور 15 پر فساد برپا کرنے کے مقدمات درج کیے گئے۔

ویلج ڈیفنس کمیٹیوں کے کئی ہندو ارکان پر مقامی مسلمان شہریوں کو ہراساں کرنے ، دھونس اور دباؤ کا رویہ اختیار کرنے اور انہیں فراہم کیے گئے اسلحے کےبل بوتے پر ہڑبونگ مچانے کے الزامات بھی لگتے رہے۔

دوسری جانب عسکریت پسندوں نے ان کمیٹیوں کے اراکین کو ہدف بنانا شروع کیا تھا۔ان کی طرف سے کیے گئے حملوں میں درجنوں اراکین ہلاک یا زخمی بھی ہوئے تھے۔

حکومت نے اگرچہ ان تنظیموں کو تحلیل کرنے سے انکار کیا تھا لیکن اس نے یقین دلایا تھا کہ اگر ویلیج ڈیفنس کمیٹی کے کسی رکن کو ڈسپلن کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تو اسے فوری طور پر غیر مسلح کر دیا جائے ۔

'قانون توڑنے والوں کا مقابلہ قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جائے'

بھارت کی مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے مقامی لیڈر اور سابق ممبرِ اسمبلی محمد یوسف تاریگامی کہتے ہیں کہ قانون توڑنے والوں کا مقابلہ کسی ایسے طریقے سے نہیں کیا جا سکتا جس کا قانون کی کتابوں میں ذکر نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ قانون کا نفاذ حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے اور اس کے پاس وسائل بھی ہیں۔

اُن کے بقول جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس زیادہ استعداد ہے تو پھر ایسے اقدامات کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے علاقے میں انارکی پھیل سکتی ہے۔

تاریگامی نے کہا کہ ماضی میں وی ڈی سیز کے کئی ممبران نے انہیں فراہم کیے گئے اسلحے کا غلط استعمال کیا تھا اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ایسا نہیں دہرایا جائے گا۔

سرکردہ صحافی اور تجزیہ کار ڈاکٹر ارون جوشی نے وائس آف امریکہ کو بتایا "ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں یا گروپس کو دوبارہ تشکیل دینے کااقدام حکومتِ بھارت کا ایک سیاسی فیصلہ تھا۔

اُن کے بقول اس کا بنیادی مقصد یہ تاثر پیدا کرنا تھا کہ وہ جموں و کشمیر کے ان دیہات میں رہنےوالوں اور ان کی حفاظت کے معاملے میں حساس اور فکر مند ہیں جہاں عسکریت پسندوں کے حملوں کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی جموں خطے کے مختلف اضلاع میں اس طرح کی کمیٹیوں کے ارکان کو اسلحہ فراہم کیا گیا تھا اور انہیں اسے استعمال کرنے کی تربیت دی گئی تھی لیکن وہ جموں و کشمیر میں مسلح تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ دس برسوں کے دوراں پونچھ اور راجوری میں تین یا چار واقعات کو جن میں اَپر ڈانگری میں پیش آنے والا واقعہ سب سے زیادہ سنگین تھا چھوڑ کر کسی بھی بڑے دہشتگردانہ حملے کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔"

انہوں نے مزید کہا "اگر 1400 شہریوں کو اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دی گئی ہے تو تقریباً سو دیہات کا پہلے ہی احاطہ کیا جاچکا ہے اور یہ سو دیہات دہشت گردوں کی نظر میں آگئے ہیں اور یہ حالات کے معمول پر آنے اور امن کے قیام کی اساس کی نفی کرتا ہے۔"

'حکومت اپنی ذمے داریوں سے نہ بھاگے'

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کہتی ہیں کہ شہریوں کو مسلح کرنے کے اقدام کی وہ مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ اس سے شورش زدہ علاقے میں اسلحے کا استعمال مزید بڑھے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہندو اقلیت پر حملوں کا توڑ نکالنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ شہریوں کو خود اپنی حفاظت کا کہنا اپنی ذمے داریوں سے بھاگنے کے مترادف ہے۔

میناکشی گنگولی نے مزید کہا کہ حکومت نے ان اضلاع میں سیکیورٹی فورسز کو بڑی تعداد میں تعینات کردیا ہے جنہیں ان شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے بجائے اس کے کہ شہریوں کو مسلح کیا جائے۔

اپوزیشن پر بے حسی برتنے کا الزام

نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا ہے کہ ماضی میں دیہات دفاعی کمیٹیوں کےارکان نے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو توڑ کرنے اور بالخصوص سرحدی علاقوں میں تخریبی کارروائیوں کو روکنے میں اہم اور قابلِ تحسین کردار ادا کیا تھا۔

بی جے پی کی جموں وکشمیر شاخ کے صدر رویندر رینہ نے کہا کہ اس سلسلے میں حزبِ اختلاف اور دیگر ناقدین کے بیانات ان کے بقول اقلتیوں اور آبادی کے دیگر حساس طبقوں کے حوالے سے عدم دلچسپی بلکہ لاپرواہی کی عکاسی کرتے ہیں ۔