بھارت ایک ارب 33 کروڑ آبادی کے چین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں ہر سال تقریباً 2 کروڑ 70 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ لیکن لگ بھگ ایک کروڑ 56 لاکھ بچے اسقاط حمل کی وجہ سے دنیا میں آنکھ کھولنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی ادارے کے 193 رکن ملکوں میں سے 58 ممالک میں اسقاط حمل کی قانونی طور پر اجازت ہے۔ جب کہ 7 کے سوا تمام ممالک ماں کی جان بچانے کے لیے اسقاط کی اجازت ہے۔ یہ 7 ملک، جنوبی سوڈان، مالٹا، ایل سلواڈور، جمہوریہ ڈومینکن، نکاراگوا اور چلی ہیں۔
حال ہی میں جاری ہونے والے ایک مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں زیادہ تر عورتیں کسی طبی ماہر سے مشورہ کیے بغیر حمل گرانے کے لیے خود ہی گولیاں کھا لیتی ہیں جس کے نتیجے میں بعض دفعہ پیچیدگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔
بھارت کا قانون اس صورت میں 20 ہفتوں سے کم کا حمل گرانے کی اجازت دیتا ہے، اگر ماں کی جان کو خطرہ ہو یا ڈاکٹر یہ محسوس کریں کہ پیدا ہونے والا بچہ شدید نوعیت کی ذہنی یا جسمانی معذوری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں بھارت کی سپریم کورٹ نے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک 13 سالہ لڑکی کو 31 ماہ کا حمل گرانے کی اجازت تھی، جس کی میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بچے کی پیدائش سے زچہ اور بچہ دونوں کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
خبررساں ادارے روئیٹرز کی رپورٹ کے مطابق مطالعاتی جائزے کے مصنفین نے مشورہ دیا ہے کہ اس سلسلے میں سرکاری اسپتالوں میں زیادہ تجربہ کار ڈاکٹر اور طبی عملہ تعینات کیا جائے تاکہ خواتین کو اس دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچایا جا سکے۔
روئیٹرز نے اپنی رپورٹ میں نیویارک میں قائم ایک مطالعاتی گروپ ’گاٹ ماکر کے مطالعاتی جائزے کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں اسقاط حمل کے واقعات کی تعداد سرکاری اندازوں سے 22 گنا زیادہ ہے۔
بھارتی حکومت کے اندازوں کے مطابق ملک میں اسقاط حمل کے تقریباً 7 لاکھ واقعات ہوتے ہیں۔ حکومتی تخمینے عموماً سرکاری اسپتالوں اور طبی مراکز سے حاصل شدہ رپورٹس پر مبنی ہوتے ہیں۔
مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ حمل گرانے کے لیے سرکاری اسپتالوں اور طبی مراکز میں جانے والے خواتین کی تعداد 20 فی صد سے بھی کم ہوتی ہے جب کہ 80 فی صد سے زیادہ عورتیں اس مقصد کے لیے یا تو کھلے عام ملنے والی گولیوں پر انحصار کرتی ہیں، یا پھر پرائیویٹ کلینکس کا رخ کرتی ہیں تاکہ وہ نظروں میں آنے سے محفوظ رہ سکیں۔
چندی گڑھ میں قائم پوسٹ گریجوایٹ انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ کے 2016 کے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اسقاط حمل کے لیے سرکاری شفاخانوں میں اس لیے جانے سے گریز کرتی ہیں کیونکہ ان کی 90 فی تعداد اسے غیر قانونی سمجھتی ہے۔ اسی رپورٹ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ 45 فی صد نوجوان خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ اسقاط حمل کرانا غیر شادی شدہ عورتوں کا قانونی حق ہے۔
تاہم گاٹ ماکر کی رپورٹ میں اسقاط حمل کے قانونی واقعات پر مبنی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 5 فی صد خواتین اناڑیوں اور عطائیوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں جس سے بعض صورتوں میں انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔
گاٹ ماکر کی ایک ریسرچر سوشیلا سنگھ نے کہا ہے کہ بھارت میں اسقاط حمل کے سلسلے میں خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں اس کے لیے سہولتیں بہت کم ہیں۔ ان سہولتوں میں اضافہ کرنا اور انہیں معیاری بنانا وقت کا تقاضا ہے۔
طبی جریدے لینسٹ گلوبل ہیلتھ میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ ایک ایسی پہلی ملک گیر تحقیق ہے جس میں غیرارادی یا حادثاتی طور پر حمل ٹہر جانے کے بعد کی صورت حال کو موضوع بنایا گیا ہے۔
اس رپورٹ کی تیاری میں ریسرچرز نے بھارت کی چھ گنجان آباد ریاستوں کا سروے کیا اور 2015 میں ملک بھر میں اسقاط حمل کی گولیوں کی فروخت کے اعداد وشمار اکھٹے کیے۔
رپورٹ کے مطابق 4 کروڑ 80 لاکھ عورتوں کو اس لیے اسقاط حمل کرانا پڑا احتیاطی تدابيراختیار کرنے کے باوجود امید سے ہو گئیں تھیں اور بچہ پیدا کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ یہ تعداد 2015 میں اسقاط حمل کرانے والی خواتین کی کل تعداد کے نصف سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسقاط حمل کے ہر چار میں سے تین واقعات میں خواتین نے کسی ڈاکٹر کے پاس جانے، یا کسی طبی ماہر سے مشاورت کیے بغیر از خود میڈیکل اسٹور سے گولیاں خرید کر استعمال کیں۔
رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں اسقاط کے تین چوتھائی واقعات شہری علاقوں میں ہوئے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ تعداد محض ایک چوتھائی تھی جس کی وجہ وہاں طبی سہولتوں کی کمی اور اسقاط سے متعلق ادویات کے بارے میں معلومات کا نہ ہونا تھا۔
بھارت میں ملک گیر سطح پر اس حوالے سے کبھی کوئی سروے نہیں کیا گیا۔ ممبئی میں قائم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز کے ایک عہدے دارے چندر شیکھر کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے پالیسی سازوں کو تولیدی صحت کی دیکھ بھال کے اپنے پروگراموں کو بہتر بنانے اور ان کے موثر نفاذ میں مدد مل سکتی ہے۔