|
ترکیہ کے ملک گیر بلدیاتی انتخابات میں حزبِ اختلاف نے صدر رجب طیب ایردوان کی حکمراں جماعت 'اے کے پارٹی' کے مقابلے میں بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔
اتوار کو ہونے والے انتخابات میں اپوزیشن جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی نے دارالحکومت انقرہ اور استنبول سمیت کئی شہروں میں میدان مار لیا۔
استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو نے صدر ایردوان کی اے کے پارٹی کے امیدوار کے خلاف باآسانی فتح حاصل کی جب کہ ری پبلکن پیپلز پارٹی نے کئی دیگر بڑے شہروں میں بھی میئر کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
مجموعی طور پر ری پبلکن پارٹی نے ترکی کے 81 صوبوں میں سے 36 کی میونسپلٹی جیت لی جب کہ ایردوان کی جماعت اے کے پارٹی کے کئی مضبوط اضلاع میں بھی حزبِ اختلاف کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
صدر ایردوان نے تقریباً دو دہائیوں تک ترکی پر حکومت کی ہے اور الیکشن سے قبل ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں میں اے کے پی اور ری پبلکن پیپلز پارٹی میں استنبول میں سخت مقابلے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
یہی نہیں ری پبلکن پیپلز پارٹی کی ملک بھر میں ممکنہ شکست دیکھی جا رہی تھی۔ لیکن انتخابی نتائج ان تمام جائزوں کے برعکس آئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایردوان اور ان کی اے کے پی کو بڑھتی ہوئی مہنگائی، غیر مطمئن اسلام پسند ووٹروں اور استنبول میں امام اوغلو کے بیانیے کی وجہ سے شکست ہوئی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے امام اوغلو کو صدر ایردوان کے ممکنہ صدارتی حریف کے طور پر مزید مضبوط کر دیا ہے۔
سرکاری نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق ری پبلکن پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں 37 فی صد ووٹ حاصل کیے جو اس کی صدر ایردوان کی پارٹی کے خلاف سب سے بڑی انتخابی فتح ہے۔
خبر کے مطابق 80 فی صد سے زیادہ ووٹوں کی گنتی کے ساتھ استنبول کے موجودہ میئر اکرم امام اوغلو ترکی کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز میں بڑے مارجن سے آگے ہیں۔
SEE ALSO: ترکیہ کے انتخابات ملکی معیشت پر کیسے اثر انداز ہو رہے ہیں؟نتائج کے مطابق دارالحکومت انقرہ کے میئر منصور یاواس نے اپنے حریف سے 25 پوائنٹس کی واضح برتری کے ساتھ اپنی نشست برقرار رکھی ہے۔
اس الیکشن کو ایردوان کی مقبولیت کے پیمانے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ان کی پارٹی ان انتخابات میں پانچ سال قبل کے انتخابات میں کھوئے گئے اہم شہری علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
سال 2019 کے الیکشن میں دارالحکومت انقرہ اور استنبول میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کی فتح نے ایردوان کی ناقابل تسخیر حیثیت کو پہلی بار توڑ دیا تھا۔
ستر سالہ ایردوان کے لیے ان کے آبائی شہر استنبول سے جیتنا ایک بڑا چیلنج تھا لیکن ان کی جماعت استنبول میں بھی ایک مرتبہ پھر ناکام ہو گئی ہے۔
انتخابی کامیابی کے دوران ری پبلکن پیپلز پارٹی کے رہنما اوزگور اوزیل نے اپنے پرجوش حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ووٹرز نے ترکی میں ایک نیا سیاسی نظام قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "آج، ووٹروں نے ترکی میں 22 سال پرانی تصویر کو تبدیل کرنے اور ہمارے ملک میں ایک نئے سیاسی ماحول کا دروازہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔"
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔