|
دمشق یونیورسٹی کے پر جوش طابعلم، دار الحکومت کے سقوط کے بعد اتوار کو کیمپس کے قریب ایک بڑے گراؤنڈ میں سابق دور اقتدار کی علامت کے ایک گرے ہوئے مجسمے پر چڑھ گئے ۔
اٹھارہ سالہ میڈیکل اسٹوڈنٹ ریناد عبداللہ نے خوشی سے کہا، ’’ماحول غیر معمولی ہے ، ہر ایک خوش ہے ،لوگوں کی خوشیاں ملاحظہ کریں ۔‘‘
ان کے سامنے حافظ الاسد کاکئی فٹ اونچامجسمہ زمین پر گرا ہوا تھا ،جنہوں نے اپنے بیٹے کی جانشینی سے قبل 1971 سے 2000 تک شام پر بنا کسی چیلنج کے حکومت کی تھی۔
نوجوان طالبہ نے ہنستے ہوئے کہا،’’ میرے پاس ایک پرانا فوٹو ہے جس میں میں اس مجسمے کے سامنے پوز بنارہی ہوں ، اب میں اسی جگہ مجسمے کے بغیر پوز بنا رہی ہوں۔‘‘
فیکلٹی کے ڈین علی الہام نے اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کو کلاسیں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں، اور لگ بھگ 80 فیصد اسٹاف اور طالبعلموں کی ایک بڑی تعداد یونیورسٹی میں موجود ہے ۔
یونیورسٹی گراؤنڈ میں سینکڑوں طالبعلم انقلابی نعرے لگاتے ہوئےاور 2011 کی جمہوریت نواز شورش کی ایک علامت تین ستاروں والاجھنڈالہراتے ہوئے جشن مناتے رہے۔
انگلش لٹریچر کی ایک 29 سالہ طالبہ یاسمین شہاب کہتی ہیں، ’’ یہ وہ لمحہ ہے جس کا ہم اتنےطویل عرصے سے انتظار کر رہے تھے ۔ اور پھر اب یہ مجسمہ بھی نہیں رہا جس نے اپنی موجودگی سے ہم پر ظلم کیا تھا۔‘‘
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ،’’ ہم آخر کار خود کو آزاد محسوس کررہے ہیں۔ ہم آخر کار وہ سب کچھ بے خوف ہو کر کہہ سکتے ہیں جو ہم سوچتے ہیں۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ شام کے مستقبل کے بارے میں پر اعتماد ہیں، ’’ تمام کمیونٹیز کے لیے ایک جگہ ہو گی ، جو ہاتھ میں ہاتھ لے کر آگے بڑھیں گی۔‘
ہزاروں طالبعلموں نے مرکزی اموی مسجد کی جانب اچانک مظاہرے کے لیے مارچ کیا ، جہاں شامی شہری ایک ہفتے سے بشار الاسد کے زوال کی خوشی منارہے ہیں۔
شام کی عبوری حکومت کے سربراہ، وزیر اعظم محمد البشیر نے گزشتہ بدھ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اسلام پسند ہئیت تحریر الشام کے زیر قیادت اتحاد ، ایچ ٹی ایس ،ایک کثیر نسلی اور کثیر العقائد ملک میں سب کے حقوق کی ضمانت دے گا۔
ہر جگہ پرچم
اے ایف پی کے صحافیوں کے مطابق ، دمشق میں 8 دسمبر کو بشار الاسد کے زوال کے بعد اتوار کو اسکول کے بچے بھی پہلی مرتبہ کلاسوں میں واپس آئے جن میں سے کچھ نے یونیفارم پہنے ہوئے تھے ۔
اسکول جاتے ہوئے راستے میں لڑکیوں نے وکٹری کا سائن بنایا ۔ان میں سے ایک نے اپنے رخسار پر تین ستاروں والا جھنڈا بنایا ہوا تھا۔دوسری لڑکیوں نے فخر سے جھنڈے لہرائے ۔
ایک 56 سالہ والدہ رغیدہ غوثن نے اے ایف پی کو بتایا ، ’’ اسکول نے ہم سے مڈل اورہائی اسکول اسٹوڈنٹس کو کلاس میں بھیجنے کا کہا تھا ۔ سب سے چھوٹے اسٹوڈنٹس دوروز میں واپس آئیں گے۔
ایک کلاس روم میں ، بہت معمولی تبدیلی آئی ہے، یا تقریباً کچھ نہیں بدلا۔ ایک بڑا جھنڈا، انقلاب کی علامت ،دیوار پر لٹکادیا گیا ہے ۔
پبلک اسکول کے ایک اہلکار کے مطابق ، اتوار کو حاضری ، 30 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھی ، لیکن اس تعداد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو جائے گا۔
دمشق میں اتوار کو ، آور لیڈی آف دی ڈورمیشن ، چرچ میں ایک دعائیہ تقریب بھی ہوئی۔
دکانیں اور کاروبار بھی بحال ہو گئے ہیں اور دن کے شروع کے وقت سے رہائشی اپنے دفاتر کو جا رہے ہیں۔
اے ایف پی کے ایک صحافی نے بتایا کہ دمشق کے ایک رہائشی اور سب سے گنجان آباد ڈسٹرکٹ رکن الدین میں دس لوگ ایک بیکری کے سامنے پر امن طریقے سے قطار میں کھڑے تھے ۔
فٹ پاتھوں پر دکاندار تیل کی قلت کے شکار رہائشیوں کو مٹی کے تیل کے کنستر فروخت کررہے تھے۔۔
شام میں ہر جگہ کی طرح دمشق میں بجلی کی بار بار بندش عام ہے ۔رہائشی گھنٹوں بجلی سے محروم رہتے ہیں، کچھ مضافات میں ، بعض اوقات دن میں 20 گھنٹے تک بجلی نہیں آتی۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔