سرحد نہ کھلی تو افغانوں کے لیے طیارے بھیجیں گے: افغان سفیر

سفیر عمر زخیلوال

پاکستان کی طرف سے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر گزرگاہوں کی بندش سے دو طرفہ تعلقات میں پہلے سے موجود سردمہری میں اب مزید تناؤ دیکھا جا رہا ہے اور اسلام آباد میں افغان سفیر عمر زخیلوال نے کہا ہے کہ اگر آئندہ چند روز میں سرحدی گزرگاہیں نہ کھولی گئیں تو وہ پاکستان میں پھنسے ہزاروں افغانوں کو وطن واپس لانے کے لیے اپنی حکومت سے خصوصی طیارے بھیجنے کی درخواست کریں گے۔

ہفتہ کو دیر گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ "فیس بک" پر اپنے ایک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ان راستوں کی بندش کے معاملے کو انھوں نے پاکستان کی فوجی و سول قیادت کے سامنے اٹھایا لیکن اس بابت انھیں کوئی تسلی بخش وضاحت نہیں مل سکی۔

"یہ کہا جانا کہ ان گزرگاہوں کو بند کیا جانا دہشت گردوں کی سرحد پر نقل و حرکت کو روکنے کے لیے ضروری ہے، کوئی وزن نہیں رکھتا کیونکہ یہ گزرگاہیں جیسے کہ طورخم اور سپین بولدک کی سرحدی گزرگاہوں پر سیکڑوں فوجی اور دیگر سکیورٹی اہلکار تعینات ہوتے ہیں اور جانچ کا ایک بنیادی ڈھانچہ یہاں موجود ہے۔"

پاکستان نے گزشتہ ماہ اپنے ہاں ہونے والے مختلف دہشت گرد حملوں خصوصاً سیہون میں صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر خودکش بم دھماکے کے بعد 16 فروری سے ان اہم سرحدی گزرگاہوں کو بند کر دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان نقل و حرکت کے قانونی راستوں کی بندش کی اس کے سوا کوئی وضاحت نہیں ہو سکتی کہ یہ "عام افغانوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔" تاہم ان کے بقول اس سے زیادہ نقصان دو طرفہ تجارت کو پہنچ رہا ہے جس میں پاکستان زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔

سفیر زخیلوال کے بقول انھوں نے پاکستانی راہنماؤں کو آگاہ کیا کہ تقریباً 25 ہزار افغان جن میں اکثریت غریب لوگوں کی ہے، ویزوں کے ساتھ علاج و معالجے یا دیگر کاموں کے لیے پاکستان آئے اور سرحد کی بندش سے یہاں دو ہفتوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کے سرحدی علاقے لنڈی کوتل میں پھنسے افغانوں نے مظاہرہ بھی کیا

"گزشتہ ہفتے متواتر یہ یقینی دہانی کروائی گئی کہ سرحد کو جزوی طور پر کھول دیا جائے گا تاکہ پھنسے والے افغان شہری واپس جا سکیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔"

افغان سفیر نے کہا کہ انھوں نے پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو آگاہ کیا ہے کہ اگر آئندہ دو روز میں یہ راستے نہیں کھولے جاتے تو وہ پاکستان میں پھنسے افغانوں کو واپس لے جانے کے لیے اپنی حکومت سے خصوصی طیارے بھیجنے کی درخواست کریں گے جس سے ان کے بقول "ایک برا تاثر ملے گا۔"

پاکستان کی طرف سے تاحال اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن شائع شدہ اطلاعات کے مطابق حکام ان سرحدی راستوں کو اس وقت تک بند رکھنا چاہتے ہیں جب تک افغان سرحد کے ساتھ واقع علاقوں سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا نہیں کر دیا جاتا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے ہفتہ کو سرکاری ٹی وی سے ایک انٹرویو میں کہا کہ سرحد پر نگرانی کا موثر نظام دونوں ملکوں کے مفاد میں اور افغانستان کو پاکستانی اقدام کا خیرمقدم کرنا چاہیے تھا۔

مبصرین بھی یہ کہتے آ رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کو تناؤ میں کمی کے لیے مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اعتماد کو فروغ دینے کے اقدام کرنے چاہیئں۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ اور تجزیہ کار ڈاکٹر اعجاز خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

افغان سفیر نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہونے والی اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس سے کیے گئے اپنے خطاب میں سرحدی راستوں کی بندش کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی انھیں کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔

فیس بک پر اپنے پیغام میں انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ تجارتی راستوں کی بندش حال ہی میں ہونے والی اقتصادی تعاون تنظیم اجلاس کے رابطوں کے فروغ کے پیغام سے متصادم ہے۔