|
اترپردیش آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ لیکن 20 کروڑ آبادی کی یہ ریاست ملک کی کئی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ ہے۔ زیادہ تر لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
کسانوں کو شکایت ہے کہ کھاد، کیڑے مار ادویات اور دوسرے زرعی اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ان کا منافع کم ہو گیا ہے۔ ان کاشت کاروں میں کرشن پال بھی شامل ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا دھیان ہمارے اخراجات کی طرف نہیں ہے۔ وہ کسانوں کی مدد نہیں کر رہی۔
لیکن جب پال سے یہ پوچھا گیا کہ وہ الیکشن میں کس جماعت کو ووٹ دیں گے تو انہوں نے بی جے پی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہندوؤں کا ملک ہے۔ ہندوؤں کو اقتدار میں رہنا چاہیے۔
اترپردیش میں کسانوں کے ساتھ ساتھ کاروباری افراد اور عام لوگ بھی، گھٹتی ہوئی آمدنیوں، سکڑتے ہوئے کاروبار اور بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہیں۔
مراد نگر قصبے کے ایک دکاندار محمد اشرف دودھ کے بزنس سے منسلک ہیں۔ انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے نوجوان دودھ بیچنے اور اسی طرح کے دوسرے کاروباروں کی طرف آ رہے ہیں جس سے ان کا بزنس سکڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو نوکریاں اور روزگار چاہیے۔ حکومت نے دس برسوں میں نوکریاں نہیں دیں۔
اتر پردیش کے بہت سے ووٹر اپنے مسائل اور مشکلات کے باوجود کرشن پال کی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کے پرجوش حامی ہیں۔ یہ ریاست 543 کے ایوان زیریں کے لیے 80 ارکان منتخب کرتی ہے۔ اس ریاست نے 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں بھی بی جے پی کو کامیابی دلائی تھی۔
رائے عامہ کے حالیہ سروے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ 19 اپریل سے مرحلہ وار شروع ہونے والے انتخابات میں بی جے پی اس ریاست سے 70 نشستیں جیت لے گی۔
رائے عامہ کے جائزوں سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ انڈیا کے نام سے قائم ہونے والا حزب اختلاف کا اتحاد، اترپردیش میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے گا۔
اس ریاست کی ایک اہم علاقائی سیاسی جماعت سماج وادی پارٹی ہے، جس نے 2012 اور 2017 کے ریاستی انتخابات جیت کر اترپردیش پر حکومت کی تھی۔ مگر حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ سماج وادی پارٹی قومی انتخابات میں 10 سے بھی کم نشستیں حاصل کر پائے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ بی جے پی کو اترپردیش میں واضح حمایت کی وجہ اس کا ہندوتوا نظریہ ہے۔ تاہم کپل تیاگی جیسے کچھ کسانوں کا کہنا ہے کہ مودی کے اقتدار میں آنے سے مقامی سطح پر ترقی ہوئی ہے جس سے وہ مطمئن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقے میں پانی کی ٹینکی بن گئی ہے۔ بجلی بھی آ رہی ہے اور سڑک بھی جلد بن جائے گی۔
غازی آباد سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک قصبے کی کاروباری شخصیت منان آنند نے وی او اے کو بتایا کہ مودی کی حکومت نے کاروباروں کے لیے قرضوں میں آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ریاست میں جرائم کی سطح بہت گر گئی ہے۔ اب لڑکیاں اور عورتیں شام کے وقت بلا خوف و خطر گھر سے باہر جا سکتی ہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔
سیاسی تجزیہ کار اور مصنفہ نیرجا چوہدری کا کہنا ہے کہ مودی ہندوؤں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ بی جے پی نے سماجی بہبود کے بہت سے پروگرام متعارف کرائے ہیں، جس سے لوگوں کے ہاتھوں میں سرمایہ آیا ہے۔ لوگ اسے مودی گارنٹی کہتے ہیں۔
جنوری میں مودی نے ایودھیا میں ہندو دیوتا بھگوان رام کے ایک عظیم مندر کا افتتاح کیا تھا۔ یہ مندر 16 ویں صدی کی متنازع بابری مسجد کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے۔ جس سے بی جے پی کے ایک اہم وعدے کی تکمیل ہوئی ہے۔
تجزیہ کار رشید قدوائی کہتے ہیں کہ بھارتی فطرتاً مذہب سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ مودی اور بی جے پی نے رام مندر کے افتتاح کو سیاسی طور پر استعمال کیا ہے۔
بی جے پی نے اترپردیش میں اپنی حمایت کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بھی کیا ہے جس کا اسے فائدہ ہوا ہے۔
تجزیہ کار یہ توقع کر رہے ہیں 19 اپریل سے شروع ہونے والے انتخابات میں بی جے پی اترپردیش میں غیر معمولی کارکردگی دکھائے گی۔ بھارت میں انتخابات سات مرحلوں میں مکمل ہوتے ہیں اور چھ ہفتوں تک جاری رہتے ہیں۔ ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد گنتی 4 جون کو ہو گی۔