'اسلامی شدت پسندی کی اصطلاح کا استعمال ترک کرنا ہو گا'

عمران خان (وزیرِ اعظم پاکستان)

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اسلامی شدت پسندی کی اصطلاح درست نہیں ہے کیوں کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مسلمان انتہا پسند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی مذہب بھی انتہا پسندی کی ترغیب نہیں دیتا لہذٰا مغرب کو اسلامی شدت پسندی کی اصطلاع کا استعمال ترک کر دینا چاہیے۔

اتوار کو کینیڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (سی بی سی) کو دیے گئے انٹرویو میں وزیرِ اعظم عمران خان نے مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک جنونی شخص کے حملے میں پاکستانی خاندان کی ہلاکت کے واقعہ کا ملک میں بہت گہرا اثر پڑا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ انہوں نے کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کے ساتھ اس معاملے پر گفتگو کی ہے اور انہیں اس مسئلے کی اہمیت اور سنگینی کا احساس ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ بعض بین الاقوامی رہنما اور مغربی ممالک کی قیادت اسلاموفوبیا کے معاملے کو نہیں سمجھ رہی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اس واقعے پر دیگر عالمی رہنماؤں کی جانب سے کوئی مؤثر ردعمل ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔

انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ نفرت پھیلانے والی ویب سائٹس کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کارروائی ہونی چاہیے اور سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں اور انتہا پسندی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جانا چاہیے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کینیڈا واقعہ: 'مسلم برادری میں غم و غصہ اور تکلیف پائی جاتی ہے'

واضح رہے کہ گزشتہ اتوار پیش آنے والے واقعے میں 20 سالہ شخص نتھانیل ویلٹمن نے کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے شہر لندن میں فٹ پاتھ پر ٹرک چڑھا کر مسلم خاندان کے چار افراد کو ہلاک جب کہ ایک کو شدید زخمی کر دیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مسلمانوں کو ہدف بنا کر کی گئی دہشت گردی کا ایسا واقعہ ہے جس کی جڑیں اسلامو فوبیا میں ہیں جو بڑھتا جا رہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ وہ مغربی کلچر کو جانتے ہیں اور اسی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد سے انسانیت کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے کی حد وہاں تک ہے جہاں تک دوسرے انسان کے جذبات اس سے مجروح نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا گیا جس کے اثرات آج مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا کی صورت میں دیکھے جا رہے ہیں۔

عمران خان کے بقول اسلاموفوبیا مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو متاثر نہیں کرتا بلکہ یہ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ایک خطرہ ہے۔

'ویغور مسلمانوں کے معاملے پر چین سے بات ہوتی رہتی ہے'

چین میں ویغور مسلمانوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر پاکستان کے وزیرِ اعظم نے کہا کہ وہ تمام مسلمانوں کی بات کرتے ہیں اور چین کے ساتھ اس معاملے پر بند کمرہ بات چیت ہوتی رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کا ہمسایہ ملک اور دیرینہ دوست ہے اس لیے ہم اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ اگر ہمیں کسی معاملے پر تشویش ہے تو اسے باہمی بات چیت میں اٹھایا جائے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر بڑھتے واقعات پر اکثر تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس سے خطاب میں انہوں نے اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے ایک عالمی دن مقرر کرنے کی تجویز دی تھی۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم نے فرانس کے جریدے کی جانب سے پیغمبرِ اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر بھی سخت ردعمل ظاہر کیا تھا جس کے بعد بعض مبصرین کے مطابق دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔