پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کے دورے کے بعد وطن واپسی پر وہ طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کر کے انھیں کابل حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے جس سے اب تک وہ انکار کرتے آ رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے یہ بات اپنے دورہ واشنگٹن کے دوران اس وقت کہی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان افغان تنازع کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم تحقیقاتی ادارے ‘یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس ’میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم ’عمران خان نے کہا کہ قبل ازیں انہوں نے کابل حکومت کے اعتراض کے بعد طالبان سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
تاہم عمران خان نے کہا کہ‘‘ جب وہ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد واپس پاکستان جائیں گے تو طالبان سے ملاقات کریں گے اور وہ انہیں افغان حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے تاکہ افغانستان میں انتخابات ہوں، جس میں طالبان سمیت سب شریک ہو سکیں۔’’
عمران خان نے کہا کہ انہوں نے اب افغان صدر اشرف غنی سے بات کر لی ہے۔ ’میں اب طالبان سے ملاقات کروں گا اور انہیں افغان حکومت سے بات چیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کروں گا‘۔
وزیر اعظم عمران خان کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور طالبان نمائندوں کے درمیان بات چیت کا آٹھواں دور، رواں ماہ قطر کے دارالحکومت شروع ہونے جا رہا ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان نے افغان امن عمل کی جاری کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے، جسے امریکہ بھی تسلیم کرتا ہے، تاہم ان کے خیال میں طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت پر آمادہ کرنا ایک چیلنج ہے کیونکہ اس بارے میں طالبان کا موقف واضع ہے کہ جب تک امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت دونوں فریقین کے درمیان کسی حتمی سمجھوتے تک نہیں پہنچ جاتی، وہ کابل حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان کو امریکہ کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنے پر پاکستان نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تھا، تاہم ان کے بقول طالبان کو افغان حکومت سے بات چیت پر آمادہ کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور پاکستان کے سفارت کار رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ پاکستان کا طالبان پر جو اثر و رسوخ ہے، اس کی کچھ حدود ہیں۔ ان کے بقول ‘‘وہ لامحدود نہیں ہیں۔ کچھ حد تک وہ پاکستان کی بات ماننے پر تیار ہیں۔ لیکن ان کی اپنی ترجیحات ہیں جن کو ہر طور وہ خیال رکھیں گے۔’’
انہوں نے کہا کہ اس راہ میں کئی مشکلات ہیں کیونکہ طالبان ابھی تک جنگ بندی اور کابل حکومت سے بات چیت پر یتار نہیں ہیں اور دوسری طرف افغان حکومت کو بھی طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری بات چیت پر کئی تحفظات ہیں۔
رستم شاہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان اور امریکہ کے درمیان کئی معاملات پر بات چیت ایک فیصلے کن مرحلے پر پہنچ گئی ہے جسے دنوں فریقین تسلیم کر چکے ہیں اور اگر اس مرحلے پر دونوں فریقین کسی لچک کا مظاہرہ کریں گے تو شاید بات چیت کا عمل نتیجہ خیز ہو سکتا ہے اور بعد ازاں افغان دھڑوں بشمول طالبان کے درمیان باضابطہ بات چیت شرو ع ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ طالبان کو جنگ بندی اور کابل حکومت سے بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
تاہم تجزیہ کار رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ اس راہ میں کئی مشکلات ہیں کیونکہ طالبان کا موقف ہے کہ جنگ بندی اس وقت کریں گے جب امریکی انتطامیہ انخلا کا نظام الاقات سامنے لائے اور اس پر عمل بھی کرے۔ پھر وہ کچھ محدود جنگ بندی کریں گے۔ لیکن اگر پاکستان طالبان پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالے گا تو طالبان کی قیادت میں اس پر اختلاف ہو سکتا ہے اور وہ اس کی پوری طرح تائید نہیں کریں گے جس کی توقع پاکستان کو ہے۔’’
انہوں نے کہا کہ امریکہ طالبان کے اس موقف سے پہلے بھی آگاہ ہیں۔ لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید پاکستان اس کو تبدیل کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان ضرور ان سے بات کر سکتے ہیں، لیکن طالبان اپنے فیصلے اپنے ترجیحات کے مطابق کرتے ہیں۔
دوسری طرف افغانستان کے صدارتی محل کی طرف جاری ہونے والے بیان کے مطابق افغان صدر اشرف غنی اور امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کابل میں افغان امن کوشش پر بات چیت کی ہے۔ بیان کے مطابق اس موقع پر صدر غنی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان سے متعلق دیے گئے حالیہ بیان پر بھی بات کی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ چاہتے تو افغان جنگ ایک ہفتے میں جیتی جا سکتی تھی۔ لیکن اس کے لیے ایک کروڑ افغان ہلاک ہو جاتے، جو وہ نہیں چاہتے۔
زلمے خلیل زاد افغان تنازع کے خاتمے کے لیے کی جانے والے کوششوں کے سلسلے میں کابل کے ددورے پر ہیں اور بعد ازاں طالبان نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ بھی جائیں گے۔