وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ جنگ سے ایک مسئلہ حل ہوتا ہے تو چار اور مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔
گورنر ہاؤس لاہور میں انٹر نیشنل سکھ کنونشن کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقتیں ہیں، تناؤ بڑھا تو اس سے دنیا کو خطرہ ہے مگر پاکستان کی طرف سے کبھی جنگ میں پہل نہیں ہو گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اُن کی حکومت کے پہلے ہی روز انہوں نے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور بات چیت کا پیغام دیا، لیکن اُنہیں ہمیشہ مایوسی ہوئی۔
“جس دن وزیراعظم بنا تو پہلی کوشش یہی تھی کہ ہندوستان سے تعلقات اچھے بنائیں اور ان کو پیغام دیا کہ آپ ایک قدم بڑھائیں گے تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ لیکن ہم نے جتنی بھی کوشش کی تو ایسے لگا کہ جیسے کوئی سپر پاور کسی غریب ملک کو کہہ رہی ہوتی ہے کہ پہلے آپ یہ کریں تو آگے بڑھیں گے، انہوں نے ہمیشہ شرائط رکھیں۔”
عمران خان کا کہنا تھا کہ جو کشمیر کی صورت حال ہے، وہ کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں کے علاوہ کسی پر بھی یہ ظلم ہوتا تو بھی میں آواز بلند کرتا۔ بھارت سے کہا کہ کشمیر کا 70 سال پرانا مسئلہ مذاکرات سے حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اُنہوں نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔
“انسانی معاشروں میں رحم ہوتا ہے۔ کشمیر میں گزشتہ 29 دنوں سے کرفیو نافذ کر کے 80 لاکھ لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ ہندو مذہب بھی ایسے مظالم کی اجازت نہیں دیتا۔”
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جو نظریہ اس وقت بی جے پی کی حکومت کا ہے، یہ وہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان بنا، کیونکہ یہ ہندو راج چاہتے تھے۔ بی جے پی کے نظریات ہٹلر سے ملتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی دین کسی کو قتل کی اجازت نہیں دیتا لیکن آر ایس ایس کے لوگ بھارت میں گوشت کھانے والوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ بھارتیا جنتا پارٹی آر ایس ایس کی نظریات پر چل رہی ہے۔
’’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) بھارت کو جس طرف لے جا رہی ہے، اس میں کسی اور مذہب کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی، ہندو انتہا پسندی کی سوچ تو دلتوں اور سکھوں کو بھی برداشت نہیں کرے گی۔ آر ایس ایس کے نظریات سے اب سکھوں کو بھی خطرہ ہے۔ کشمیر میں اگر سکھ کمیونٹی بھی ہوتی تو ہم تب بھی آواز بلند کرتے۔‘‘
مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے پاکستان آنے والے سکھ مذہب کے ماننے والوں کے لیے ویزا مسائل پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جب اُنہیں پتا چلا کہ پاکستانی ویزے کا حصول مشکل ہے تو اُسے آسان بنانے کی کوشش کی گئی۔
’’سکھ برادری کیلیے ملٹی پل ویزا کی پالیسی بنائی جائے گی، اور انہیں ایئر پورٹ پر سہولتیں دی جائیں گی۔‘‘