عمران خان کی دہشت گردی کے مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری منظور

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف پولیس اور جوڈیشل افسر کو دی گئی مبینہ دھمکیوں کے الزام میں درج دہشت گردی کے مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔

عدالت نے عمران خان کی یکم ستمبر تک ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض عبوری ضمانت منظور کی ہے۔جمعرات کو سابق وزیرِ اعظم اپنے کارکنوں کے رش سے گزرتے ہوئے کمرہٴ عدالت پہنچے۔ ان کے ہمراہ دیگر رہنما بھی موجود تھے، جن میں اسد عمر، پرویز خٹک، زلفی بخاری اور فواد چوہدری شامل تھے۔

عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے دلائل کا آغاز کیا تو سماعت کے شروع میں جج راجہ جواد عباس حسن نے سوال کیا کہ اس کیس میں درخواست گزار کہاں ہیں۔ جس پر عمران خان اپنی نشست پر کھڑے ہوگئےالبتہ جج راجہ جواد عباس حسن نے انہیں نشست پر بیٹھنے کا کہا۔

عمران خان کے وکیل بابراعوان نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن کے مطابق تین لوگوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ آئی جی،ایڈیشنل آئی جی اور مجسٹریٹ زیبا کا نام لکھا گیا۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی مدعی نہیں بنا اور پولیس نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا۔

ان کے مطابق عرمان خان کے الفاظ شرم کرو کو دھمکی بنا دیا گیا ، اگر معیار یہ رکھا گیا تو اس حکومت کے کئی وزیر اس وقت اندر ہوتے۔ انہوں نے سابق وزیرِ اعظم کی تقریر کے نکات پڑھتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے مجسٹریٹ کو ایک عام آدمی کی زبان میں مخاطب کیا ۔

جج راجہ جواد عباس حسن نے سوال کیا کہ کیا ریاست کی جانب سے کوئی یہاں موجود ہے؟ جس پر بابر اعوان نے کہا کہ جب ان کو نوٹس کیا جائے گا تو وہ آئیں گے۔اس کے بعد انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے اور یکم ستمبر کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا۔

اس موقع پر وکیل بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان نو حلقوں میں ضمنی الیکشن لڑ رہے ہیں، لہذا زیادہ مدت کے لیے عبوری ضمانت دی جائے۔ عدالت نے استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ابھی یکم ستمبر تک ہی عبوری ضمانت دی جا ری ہے۔

اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری اور پولیس افسران کو مبینہ دھمکیاں دیے جانے کے کیس میں عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین دن کے اندر ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

عمران خان کی پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمیشن کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کرتے ہوئے چاروں جانب کی سڑکیں بند کر دی گئی تھیں اور پولیس اور ایف سی کے 400 اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیشی کے بعد عمران خان دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر اپنے خلاف درج مقدمے میں عبوری ضمانت کے لیے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر عباس سپرا کی عدالت میں پیش ہوئے، جہاں وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے پانچ ہزار روپے مچلکوں کے عوض تھانہ آب پارہ میں درج مقدمے میں عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے انہیں سات ستمبر کو پولیس کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔

عمران خان کی عدالت میں پیشی سے قبل تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف کیس بنتا ہی نہیں ہے۔ انہوں نے جو بات کی، وہ قانونی کارروائی کے لیے تھی۔ کسی عدالت کو یہ کہنا کہ آپ کے فیصلہ کے خلاف ہم قانونی کارروائی کریں گے، یہ دہشت گردی کیسے ہو گئی؟

عمران خان کے الفاظ کے چناؤ کے حوالے سے اسد عمر کا کہنا تھا کہ عمران خان کے الفاظ میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ انہوں نے کوئی غیر قانونی بات نہیں کی، جس پر انہیں دہشت گرد بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

تحریکِ انصاف کے رہنما اور وکیل فیصل چوہدری کہتے ہیں کہ اس کیس میں کوئی جان نہیں ہے، اگرچہ یہ ناقابلِ ضمانت دفعات کا کیس ہے لیکن اس میں عمران خان نے کسی کو جان سے مارنے کی دھمکی نہیں دی۔

ان کے مطابق عمران خان نے صرف ایک کیس میں دیے گئے فیصلے سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے قانونی کارروائی کا کہا ہے، جو ان کا حق ہے۔