جی ایچ کیو حملہ کیس؛ عمران خان، شیخ رشید سمیت دیگر کے خلاف فردِ جرم عائد

  • انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت کی۔
  • فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد عمران خان سمیت تمام ملزمان نے صحتِ جرم سے انکار کردیا۔
  • فردِ جرم عائد کرنے کے موقع پر عمران خان سمیت دیگر رہنما عدالت میں موجود تھے۔

اسلام آباد -- انسدادِ دہشت گردی عدالت نے جی ایچ کیو حملہ کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان، عمر ایوب خان اور شیخ رشید سمیت دیگر پر فردِ جرم عائد کر دی ہے۔

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور سابق صوبائی وزیر راجہ بشارت سمیت کئی رہنماؤں کو حراست میں بھی لے لیا گیا ہے۔

انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت کی۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت نے حاضر 100 ملزمان پر فردِ جرم عائد کی جس میں ملزمان پر بغاوت، دہشت گردی، اقدامِ قتل، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور سازش مجرمانہ کے الزامات شامل ہیں۔

فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد عمران خان سمیت تمام ملزمان نے صحتِ جرم سے انکار کردیا۔

گزشتہ برس نو مئی کو سابق وزیراعظم عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہونے والی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں عسکری عمارتوں پر احتجاج کیا گیا تھا اور اس دوران توڑ پھوڑ کے کئی واقعات پیش آئے تھے۔

لاہور میں ہونے والے احتجاج کے دوران کور کمانڈرز ہاؤس کو نذرِ آتش کردیا گیا تھا، کئی مقامات پر فوج کی یادگاروں کو بھی توڑ دیا گیا تھا۔

راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے گیٹ پر احتجاج کیا گیا اور اس دوران گیٹ پر سامان کی توڑ پھوڑ کی گئی۔

فردِ جرم عائد کیے جانے کے موقع پر عمران خان، شیخ رشید، صداقت عباسی، عمر ایوب، زرتاج گل، شیخ راشد شفیق، واثق قیوم عباسی، ملک احمد چٹھہ، راجہ بشارت، عثمان ڈار، اشرف خان سوہنا سمیت دیگر عدالت موجود تھے۔

عدالتی فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کو حراست میں لے لیا گیا جب کہ سابق وزیرِ قانون راجہ بشاورت کو بھی جیل سے نکلتے ہی گرفتار کر لیا گیا۔

علاوہ ازیں پی ٹی آئی کارکن عظیم کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ تحریک انصاف کے رہنما احمد چٹھہ کو بھی حراست میں لے کر پولیس چوکی اڈیالہ منتقل کردیا گیا۔

عدالت نے کیس کی آئندہ سماعت 10 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے استغاثہ کی شہادت طلب کر لی۔

قبل ازیں کیس کی سماعت میں پیش ہونے کے لیے عمر ایوب، زرتاج گل، راشد شفیق، صداقت عباسی، واثق قیوم عباسی، جاوید کوثر، ساجد قریشی، مسرت جمشید چیمہ، محمد احمد چٹھہ اور عثمان ڈار اڈیالہ جیل پہنچے تھے۔

عدالت نے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور، شبلی فراز، شیریں مزاری، زرتاج گل، زین قریشی، طیبہ راجہ کو گرفتار کر کرنے کا حکم دیا تھا۔

ان کے علاوہ دیگر تمام غیر حاضر 45 ملزمان کو بھی گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔

عدالت نے حکم دیا تھا کہ وارنٹ گرفتاری والے ملزمان پیش نہ ہوئے تو انہیں اشتہاری قرار دینے کی قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔

دورانِ سماعت کمرہ عدالت میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری کی طرف سے عدالت کے دائرہ اختیار کے حوالے سے درخواست بھی دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ یہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نہیں بلکہ سیشن کورٹ کا دائرہ اختیار ہے۔

اس پر پبلک پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرتشدد مظاہروں سے حکومت کو دباؤ میں لانا دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔

جی ایچ کیو پر حملہ افواجِ پاکستان کو بغاوت پر اکسانے کی نیت سے کیا گیا۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گرد تنظیموں کی طرز پر منظم منصوبہ بندی کی گئی۔

مئی سے قبل منصوبہ بندی کر کے عسکری اہداف کا تعین کیا گیا۔ پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے کہا کہ جی ایچ کیو پر حملہ بین الاقوامی میڈیا پر نشر ہوا جس میں بھارتی میڈیا سرفہرست تھا۔

جولائی 2023 میں محکمہ داخلہ پنجاب نے نو مئی واقعات پر رپورٹ جاری کی، اس رپوٹ کے مطابق 102 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا، عمارتوں پر منظم حملے کیے گئے۔

اس موقع پر عمران خان کے وکیل ملک فیصل نے درخواست کے حق میں دلائل دیے، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست خارج کر دی۔

تحریکِ انصاف کا ردِعمل

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما ذلفی بخاری کا کہنا ہے کہ عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فردِ جرم کو چیلنج کیا جائے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ بغیر کسی ثبوت کے فردِ جرم عائد کی گئی ہے، اُمید ہے کہ عدالت اسے کالعدم قرار دے گی کیوں کہ یہ سیاسی انتقام کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ذلفی بخاری نے کہا کہ دیگر جماعتوں سے رابطے کے لیے کمیٹی قائم کیا جانا ایک خوش آئند اقدام ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں جدوجہد صرف پی ٹی آئی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے حق میں ہے جو جمہوریت اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھتی ہیں۔