|
یہ ابھی زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے جب بھارتی مسلمان حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرتے تھے اور ان کا جھکاؤ جس پارٹی کی طرف ہوتا تھا اس کی کامیابی یقینی سمجھی جاتی تھی۔ لیکن مبصرین کے مطابق 2014 کے بعد سے مسلم ووٹ غیر اہم ہو گئے اور اب مسلمانوں کا انتخابی رجحان نتائج پر اثرانداز نہیں ہوتا۔
تاہم اس الیکشن میں یہ بات موضوعِ بحث ہے کہ مسلمان کس پارٹی کو ووٹ دینے جا رہے ہیں۔ گو کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں مسلم ووٹوں کے حصول کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہیں لیکن بی جے پی اس محاذ پر بھی سرگرم ہے۔
لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 65 ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 30 سے 80 فی صد تک ہے۔ یہ حلقے اترپردیش، آسام، بہار، کیرالہ، جموں و کشمیر، مغربی بنگال اور تیلنگانہ وغیرہ میں ہیں۔ جب کہ 35-40 سیٹیں ایسی ہیں جن پر مسلمانوں کی قابلِ لحاظ آبادی ہے۔
’نہ دوری ہے نہ کھائی ہے، مودی ہمارا بھائی ہے‘
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بی جے پی کی نظر مسلم ووٹوں پر ہے۔ اس کے اقلیتی شعبے کے مطابق اس کی جانب سے ملک بھر میں مسلمانوں کے درمیان 23 ہزار پروگرام منعقد کر کے 50 لاکھ مسلمانوں سے رابطہ قائم کیا گیا ہے۔ جب کہ 18 لاکھ سے زیادہ مودی دوست بھی بنائے گئے ہیں۔
مسلمانوں کو مودی کے قریب لانے کے لیے ’نہ دوری ہے نہ کھائی ہے، مودی ہمارا بھائی ہے‘ کا نعرہ بھی لگایا جا رہا ہے۔ طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینے کے حوالے سے مسلم خواتین کو بھی قریب لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لیکن متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اس کی وجہ سے ان کے ایک بڑے طبقے میں ڈر کا ماحول ہے۔ لہٰذا وہ کسی بھی صورت میں بی جے پی کی جانب مائل نہیں ہوں گے۔ البتہ ان کی اکثریت اپوزیشن کے محاذ ’انڈیا‘ کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔
’بی جے پی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے‘
مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق صدر، ماہر اسلامیات اور سینئر تجزیہ کار پروفیسر اختر الواسع کہتے ہیں کہ بی جے پی کو کسی بھی قسم کی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اپنی صوابدید کے مطابق ووٹ دیں گے۔
ان کے مطابق بہار اور اترپردیش میں لالو پرساد یادو اور ملائم سنگھ صرف یادو برادری کے ووٹوں کی حمایت سے حکومت نہیں کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ مذکورہ دونوں رہنماؤں کو مسلمان اجتماعی طور پر ووٹ دیتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے بی جے پی نے ملائم سنگھ کو ’ملّا ملائم‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔
جماعتِ اسلامی ہند کے نائب امیر انجینئر محمد سلیم کہتے ہیں کہ نام نہاد سیکولر جماعتوں کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ ان کو مل رہا ہے اس لیے انھیں مسلم ووٹوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ وہ اس لیے بھی مسلمانوں کا نام نہیں لیتیں کہ ان کو خدشہ ہے کہ اس صورت میں ان کو ہندو مخالف پارٹی ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
’مسلمان اپوزیشن سے مطمئن تو نہیں مگر اسی کو ووٹ دیں گے‘
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انجینئر محمد سلیم کا کہنا تھا کہ مسلمان اپوزیشن کے رویے سے مطمئن تو نہیں ہیں۔ لیکن وہ ملک کو فسطائیت کی طرف جانے سے روکنے کے لیے ان کے رویے کو گوارا کر رہے ہیں اور وہ ان کے ان امیدواروں کی حمایت کریں گے جن کے بارے میں محسوس ہو گا کہ وہ جیت رہے ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں کے بی جے پی کی طرف جانے کی بات ہے تو ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کو مسلم نہیں ہندو ووٹ چاہیے۔ اس کے لیے تمام تر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مسلم مخالف اقدامات بھی اسی لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔
وہ اس حوالے سے مدارس کے خلاف کارروائی، مسلمانوں کے مکانوں، دکانوں اور مسجدوں کے انہدام، سی اے اے اور یونیفارم سول کوڈ وغیرہ جیسے اقدامات کی مثال دیتے ہیں۔
’بی جے پی مسلم ووٹ منتشر کرنا چاہتی ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کی کوشش مسلم ووٹ کا حصول نہیں بلکہ ان کو منقسم اور منتشر کرنے کی ہے۔ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں بی جے پی پہلے بھی فرضی امیدوار کھڑے کرکے مسلم ووٹوں کو بے اثر کرتی رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں وزیرِ اعظم مودی نے پسماندہ مسلمانوں کی بات کرنی شروع کر دی ہے۔ بی جے پی نے ان کو اپنے قریب لانے کے لیے کئی پروگرامز کیے ہیں۔ لیکن اختر الواسع کہتے ہیں کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جن مسلمانوں کی ماب لنچنگ ہوئی یعنی مذہب کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں جن کا قتل ہوا وہ سب پسماندہ مسلمان ہی تھے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بی جے پی حکومت میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ اگر بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹ چاہیے تو وہ حکومت میں ان کو نمائندگی کیوں نہیں دیتی۔
خیال رہے کہ مودی حکومت میں ایم جے اکبر کو وزیر مملکت برائے خارجہ امور بنایا گیا تھا۔ لیکن بعض خواتین کی جانب سے جنسی استحصال کے الزام کے بعد انھیں وزارت سے برطرف کر دیا گیا۔
راجیہ سبھا کی رکنیت ختم ہونے کے بعد مختار عباس نقوی نے جولائی 2022 میں کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے سابق مرکزی وزیر سید شاہنواز حسین کو بہار کی سیاست میں بھیج دیا۔
'بی جے پی نے صرف ایک مسلم امیدوار کھڑا کیا ہے'
متعدد سرکردہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کے ووٹ تو چاہ رہی ہے۔ لیکن وہ کسی مسلمان کو اپنا امیدوار بنانا نہیں چاہتی۔ اس نے اپنے 400 امیدواروں میں صرف ایک مسلمان 71 سال عبد السلام کو امیدوار بنایا ہے۔ انھیں کیرالہ کے مسلم اکثریتی حلقے ملاپورم سے کھڑا کیا گیا ہے۔
عبد السلام بی جے پی اقلیتی شعبے کے قومی نائب صدر اور کالی کٹ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ہیں۔ پروفیسر اختر الواسع کہتے ہیں کہ عبد السلام کو ایسے حلقے سے کھڑا کیا گیا ہے جہاں بی جے پی کو معلوم ہے کہ وہ جیت نہیں سکتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق بی جے پی نے سابق وزراء محتار عباس نقوی، ایم جے اکبر اور سید شاہنواز حسین وغیرہ کو امیدوار بنانے کے لائق ہی نہیں سمجھا۔ بی جے پی یہ کہتی رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس لیے امیدوار نہیں بناتی کہ مسلمان اس کو ووٹ نہیں دیتے۔
جہاں تک حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے ووٹ دینے کے رجحان کی بات ہے تو ’سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی‘ (سی ایس ڈی ایس) کے سروے کے مطابق 2020 میں بہار کے انتخابات میں 77 فی صد مسلمانوں نے غیر بی جے پی اتحاد کو، 2021 کے مغربی بنگال کے انتخابات میں 75 فی صد مسلمانوں نے ترنمول کانگریس کو اور 2022 کے اترپردیش انتخابات میں 79 فی صد مسلمانوں نے سماجوادی پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کی عام رائے یہ ہے کہ مسلمان ان غیر بی جے پی امیدواروں کو ووٹ دیں گے جن کے جیتنے کے امکانات ہوں گے۔ لیکن ان کو اس بات کا خدشہ بھی ہے کہ ایک ایک حلقے میں کئی کئی مسلمانوں کے کھڑے ہو جانے کی وجہ سے ان کے ووٹ منتشر ہو جائیں گے۔
’بی جے پی کے بارے میں مسلمانوں کی سوچ بدل رہی ہے‘
بی جے پی رہنما آلوک وتس کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی نے، جو پہلے صرف ہندوتوا کی سیاست کرتی تھی اب تمام طبقات کے لیے ترقیاتی منصوبے چلاتی ہے جس کا فائدہ غریب مسلمانوں کو بھی ہوتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کا ایک طبقہ بی جے پی کی طرف آرہا ہے، بی جے پی کے بارے میں مسلمانوں کی سوچ بدل رہی ہے۔
تاہم وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بی جے پی کے نچلے درجے کے کارکنوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف اقدامات کی وجہ سے بی جے پی کو نقصان پہنچتا ہے۔ پارٹی کو ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تین طلاق کو غیر قانونی قرار دینے کی وجہ سے گزشتہ الیکشن میں مسلم خواتین کی قابلِ لحاظ تعداد نے ڈھکے چھپے انداز میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ تعلیم یافتہ مسلم خواتین تین طلاق کے قانون کی حمایت کرتی ہیں، جب کہ ناخواندہ مسلم خواتین نہیں کرتیں۔
عبد السلام کا بھی یہی کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کے بارے میں مسلمانوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ گزشتہ 10 برس میں مودی نے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ اس لیے انھیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔