کیا سی پیک منصوبے پاکستان میں مہنگی بجلی کی وجہ بن رہے ہیں؟

-

پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکٹر نے چینی سرمایہ کار کمپنیوں کو پاکستان میں سولر پارکس میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان میں آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان قابلِ تجدید توانائی کی پیداوار میں اضافہ کر کے توانائی کا درآمدی بل کم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے موسمیاتی اہداف کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔

وزیرِ اعظم کاکڑ نے یہ بات منگل کو بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ پلیٹ فارم کے موقع پر چین کے سرکردہ تھنک ٹینکس اور دانشوروں سے ایک نشست کے دوران کی۔

حکومتِ پاکستان کے مطابق سی پیک کے پہلے مرحلے میں 25 ارب ڈالر سے زائد کی ہونے والی سرمایہ کاری سے توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل ہوئے یعنی پاور ہاؤس لگے اور سڑکیں بنائی گئیں جب کہ دوسرے مرحلے میں اکنامک زونز قائم کیے جائیں گے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ پہلے مرحلے میں پاکستان کی معیشت پر مثبت اثر پڑا ہے۔

لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کے تعاون سے لگنے والے توانائی کے منصوبوں کی وجہ سے پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں لگ بھگ آٹھ ہزار میگاواٹ کا اضافہ ہونے کے باوجود پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔

سی پیک کے توانائی کے منصوبے

سنہ 2013 میں پاکستان کو بجلی کی شدید کمی کا سامنا تھا اور اُس وقت شارٹ فال تقریباً چار ہزار میگاواٹ سے زیادہ تھا۔

پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہدری کے تحت لگ بھگ 35 ارب ڈالر توانائی کے 21 منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے۔ ان میں زیادہ تر کوئلے سے چلنے والے پلانٹس تھے۔


سی پیک کے منصوبوں کے باوجود توانائی کا بحران کیوں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ توانائی ایک پیچیدہ شعبہ ہے اور اس شعبے میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے علاوہ دیگر عوامل کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔

توانائی کے شعبے میں ہونے والے مسلسل نقصانات، عالمی منڈی میں فیول کی بڑھتی ہوئی لاگت اور اس سے بننے والی مہنگی بجلی، چوری اور واجبات کی بروقت ادائیگیوں میں ناکامی کی وجہ سے یہ بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

اقتصادی امور کے ماہر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ سی پیک کے تحت قائم ہونے والے توانائی کے پلانٹس میں زیادہ تر کوئلے سے چلنے والے پلانٹس ہیں اور ان میں سے پورٹ قاسم اور ساہیوال میں لگنے والے پلانٹس میں جنوبی افریقہ سے درآمد ہونے والا کوئلہ ہی استعمال ہو سکتا ہے۔

حالیہ مہینوں میں پاکستان کو غیر ملکی زرِمبادلہ کی کمی اور عالمی مارکیٹ میں فیول کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ان پلانٹس کے لیے کوئلے کی درآمد متاثر ہوئی ہے۔

ان میں سے بعض پلانٹ بند پڑے ہوئے ہیں یا بہت کم بجلی بنا رہے ہیں۔ لیکن پرائیوٹ کمپنیوں کو طے شدہ ادائیگی ہی کرنی پڑ رہی ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے میں پاکستانی معیشت کی لیے یہ پلانٹس بوجھ ہیں کیوں کہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے سبب انہیں ادائیگی کرنا ضروری ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی مجموعی استعداد کار 41 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق پاکستان میں بجلی کی ترسیل کے نظام میں صرف 25 ہزار میگاواٹ بجلی کی ٹرانسمیشن کی صلاحیت موجود ہے۔

فرخ سلیم کہتے ہیں کہ بجلی پیدا کرنے کی استعدادِ کار کے مطابق ملک میں بجلی کی تقسیم اور ترسیل کا نظام ترتیب نہیں دیا گیا ہے۔

ان کے بقول اگر لگ بھگ 24 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی کی ترسیل کی کوشش کی جاتی ہے تو سسٹم کے غیر فعال ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا بھارت - مشرق وسطیٰ - یورپ راہداری منصوبہ چین کے بی آر آئی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے؟


پاکستان کا پاور سیکٹر اور گردشی قرضے

پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سب سے اہم مسئلہ گردشی قرضوں کا ہے جس کی وجہ فروخت کی جانے والی بجلی کی قیمت کا نہ ملنا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ واجبات کی بروقت ادائیگیوں میں ناکامی کی وجہ سے بھی پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں اور سی پیک کے تحت توانائی کے پلانٹس نصب کرنے والی چینی کمپنیوں کو بھی اس کا سامنا ہے۔

معاشی تجزیہ کار حنیہ اساد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کا سائیکل ایک طویل عرصے سے جاری ہے جو سی پیک کے منصوبے لگنے سے پہلے بھی تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان ان پاور پلانٹس کی استعدادِ کار کے مطابق ان کی ادائیگی کرنے کی پابند ہے جس کی وجہ سے دیگر پاور پروڈیوسز کی طرح سی پیک کے پاور پلانٹس کو بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے بھی گردشی قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کی توانائی کی وزارت کے مطابق دسمبر 2022 تک توانائی کے شعبے میں پاکستان کا گردشی قرضہ 2500 ارب روپے سے زیادہ ہے جس میں چینی پاور کمپنیوں کو واجب الاد واجبات بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے توانائی کے سابق وزیر خرم دستگیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ کا سب سے بڑا گردشی قرضہ مارچ 2022 میں 2467 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔

تاہم اُنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس میں چینی پاور کمپنیوں کو ادا ہونے واجبات کا حصہ کتنا تھا۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق ان کا حجم لگ بھگ تین سو ارب روپے ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کی وزارت خزانہ کی مدد سے توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی جو واجب الادا رقوم رکی ہوئی ہیں، ان کی ادائیگی ان کے دور حکومت میں شروع کر دی گئی جس کی وجہ سے نہ صرف گردشی قرضے میں اضافہ رک گیا ہے بلکہ اس میں کمی ہوئی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں بجلی کیوں مہنگی ہے؟

خرم دستگیر نے مزید کہا کہ حکومت بعض علاقوں کو جن میں فاٹا، بلوچستان کے کسانوں اور پاکستان کے زیر انتطام کشمیر شامل ہیں ،سستی بجلی فراہم کرتی رہی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ چند سال پہلے ایسے فیصلوں کا پاکستان متحمل ہو سکتا تھا لیکن اب اسے جاری رکھنا ایک چیلنج ہے۔

بجلی مہنگی کیوں ہے؟

فرخ سلیم کہتے ہیں کہ پاکستان میں سی پیک کے تحت لگنے والے تونائی کے پلانٹس کی لاگت بھارت اور بنگلہ دیش میں لگنے والے پلانٹس کی نسبت زیادہ ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں جو ٹیرف ہے وہ بھی لگ بھگ بنگلہ دیش اور بھارت کے مقابلے میں 30 سے 40 فی صد زیادہ ہے۔

'مہنگی بجلی سے ٹیکسٹائل شعبہ بھی متاثر ہو رہا ہے'

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل شاہد ستار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے پاکستان کے برآمدی شعبے خاص طور پر ٹیکسٹائل کا شعبہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں بجلی کی فی یونٹ قیمت نو سے 10 سینٹ ہے جب کہ پاکستان میں یہ قیمیت 16 سینٹ ہے جب کہ بھارت میں آٹھ سے نو سینٹ ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے اس معاملے کی طرف توجہ نہ دی تو پاکستان کی برآمدی صنعتوں کے لیے دنیا میں خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔

حنیہ اساد کا کہنا ہے کہ اس کا ذمے دار سی پیک کے توانائی کے منصوبوں کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیوں کہ حکومت نے اس بات کی ضمانت دے رکھی ہے کہ وہ ان کی استعداد کے مطابق ان سے بجلی خریدنے کی پابند ہے۔

کیا سی پیک کے پاور منصوبوں پر نظرِ ثانی کی جا سکتی ہے؟

حنیہ اساد کے مطابق سی پیک منصوبوں پر نظرِثانی کرنا نہایت مشکل امر ہے۔

اُن کے بقول ان منصوبوں میں چین کی جانب سے اربوں ڈالر کی فنڈنگ ہوئی ہے ان میں سے 80 فی صد قرضوں اور 20 فی صد سرمایہ کاری پر مشتمل ہے۔

اُن کے بقول یہ معاہدے بین الحکومتی سطح پر طے ہوئے تھے اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا مستقبل میں ناممکن نطر آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے توانائی کے منصوبوں پر ہونے والی لاگت کا سود یا ان کے منافع کو کم کرنا ایک مشکل معاملہ ہو گا۔