قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر ضمنی انتخابات,ملکی سیاست پر کتنے اثرانداز ہوں گے؟

فائل فوٹو

پاکستان میں 16 اکتوبر کو قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں میں ضمنی انتخابات کا میدان سجنے کو ہے۔ یہ انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب تحریکِ انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفوں کا معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات سے قبل زیادہ سیاسی گہما گہمی دکھائی نہیں دے رہی، تاہم ان انتخابات کے نتائج کا ملکی سیاست سے تعلق تو بہر حال موجود ہے ۔

پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان نے تمام حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں کی منظوری کامعاملہ عدالت میں ہے، اِسی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان میں عمران خان کو بطور رکنِ قومی اسمبلی مستعفی ہونے تک اور ایک سے زائد نشستوں پر بیک وقت الیکشن لڑنے سے روکنے پر بھی درخواست زیرِ سماعت ہے۔

تحریکِ انصاف کے استعفوں کی تصدیق کا معاملہ بھی التوا کا شکار ہے۔ مستعفی ہونے والے والے ارکان کو اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہو کر اپنے استعفوں کی تصدیق کرانی ہے جس سے ماہرین کے اندازوں مطابق پی ٹی آئی اَب پیچھے ہٹتی نظر آ رہی ہے۔

خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف رواں برس مارچ میں آنے والی تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد تحریکِ انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے اسمبلی رُکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کر لیے تھے، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ ایک فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ حکمران اتحاد اور خاص طور پر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف کے درمیان انتخابات کو لے کر سرد جنگ جاری رہے گی اور کبھی اِس میں شدت آ جائے گی اور کبھی کمی۔

پاکستان میں انتخابی اُمور اور جمہوریت پر نظر رکھنے والے ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اس وقت عمران خان اور اتحادی حکومت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ عمران خان کے اپنے مقاصد ہیں، جن میں وہ بظاہر اب تک کامیاب نہیں ہوئے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ عمران خان ملک میں فوری عام انتخابا چاہتے ہیں، لہذٰا اُن کی توجہ ضمنی الیکشن پر نہیں ہے۔

اُن کے بقول عمران خان کو یہ بھی ادراک ہے کہ ضمنی انتخابات میں اُن کی حالیہ مقبولیت کے پیشِ نظر اُنہیں فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں فوری انتخابات ہوں۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت واضح کر چکی ہے کہ عام انتخابات مقررہ مدت پر ہوں گے۔ لیکن عمران خان موجودہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر کے اُنہیں جلد الیکشن پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔

اُن کے بقول تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان کی جماعت نے قومی اسمبلی کی رُکنیت سے اجتماعی استعفے بھی اسی لیے دیے تھے، تاکہ نئی حکومت فوری انتخابات کرائے۔ یہ استعفے قاسم سوری نے تو منظور کر لیے، لیکن الیکشن کمیشن کے پاس نہیں پہنچے تھے۔ لہذٰا نئے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کو یہ موقع مل گیا کہ وہ ان استعفوں کو منظور کریں یا نہ کریں۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان سیاسی حکمتِ عملی کے تحت ضمنی الیکشن کے راستے میں بھی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پاکستان کا آئین اور قانون عمران خان سمیت کسی بھی شخص کو بیک وقت ایک سے زائد نشستوں پر انتخاب لڑنے سے نہیں روکتا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ عمران خان انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہیں وہ ضمنی انتخاب ہو یا عام انتخابات ابھی تک پی ٹی آئی نے انتخابات نہ لڑنے کا کوئی اعلان نہیں کیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف عمران خان کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عمران خان بیک وقت کئی نشستوں سے خود اُمیدوار بن کر یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ چاہے جتنے مرضی حلقوں میں ضمنی الیکشن کرا لیں، اُن کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

مظہر عباس کے بقول عمران خان اپنے سیاسی مخالفین او ر اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ وہ اس وقت بھی پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ہیں۔

اُن کے مطابق عمران خان جن نشستوں پر انتخاب لڑ رہے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگر جیت جاتے ہیں تو وہ حلف نہیں لیں گے۔ وہ ایک علامتی پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے اُن کی مقبولیت برقرار ہے۔

احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں تحریکِ انصاف 2018 کے انتخابات میں ان حلقوں سے جیتی تھی، لہذٰا دوبارہ ان نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا تحریکِ انصاف کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔

ضمنی انتخابات میں کامیابی کا زیادہ فائدہ کسے ہو گا؟

مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ اگر تحریکِ انصاف ان انتخابات میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر وہ کہے گی کہ اُن کا سائفر والا بیانیہ کامیاب رہا اور عوام نے بھی اس کے حق میں ووٹ دیا۔

اُن کے بقول عمران خان یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صرف جلسوں یا میڈیا پر ہی نہیں بلکہ انتخابی عمل میں بھی عوام اُن کے ساتھ ہیں اور اُن کا ووٹ بینک بڑھا ہے۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی ان ضمنی انتخابات میں کوئی خاطر خواہ دلچسپی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ ماضی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مہم چلانے والی مریم نواز لاہور ہائی کورٹ سے پاسپورٹ ملنے کے بعد لندن روانہ ہو چکی ہیں۔ ادھر عمران خان بھی تاحال ان حلقوں میں زیادہ متحرک نہیں ہیں اور مقامی اُمیدوار ہی اپنے طور پر انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

کن حلقوں میں انتخابات ہو رہے ہیں؟

الیکشن کمیشن کے مطابق جن حلقوں میں 16 اکتوبر کو پولنگ شیڈول ہے، ان میں این 22 مردان، این اے 24 چارسدہ، این 31 پشاور، این اے 45 کرم ایجنسی، این اے 108 فیصل آباد، این اے 118 ننکانہ صاحب، این اے 237 ملیر کراچی اور این اے 239 کورنگی کراچی شامل ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے این اے 246 سے تحریکِ انصاف کے رُکن قومی اسمبلی شکور شاد کی درخواست پر اس نشست کو خالی قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا تھا۔

یہ نشتیں اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے تحریکِ انصاف کے اراکین کے استعفے منظور کیے جانے کے فیصلے پر الیکشن کمیشن نے خالی قرار دی تھیں۔ ان میں نو جنرل نشستیں اور دو مخصوص نشستیں شامل ہیں۔