کسی بھی فضائی حادثے کے بعد امدادی کارروائیوں کے دوران جو پہلا کام کیا جاتا ہے وہ عام طور پر 'بلیک باکس' کی تلاش ہوتی ہے تاکہ حادثے کی وجوہات کا پتا لگایا جا سکے۔
بائیس مئی کو پی آئی اے کا لاہور سے کراچی آنے والا طیارہ جب لینڈنگ سے چند لمحے قبل آبادی پر گر تباہ ہوا تو امدادی کارروائیوں کے دوران بلیک باکس کی تلاش بھی جاری تھی۔
پاکستان کے وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے جمعرات کو تصدیق کی کہ بدقسمت طیارے کا بلیک باکس مل گیا ہے۔
اس حادثے میں عملے کے آٹھ ارکان سمیت 97 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ دو مسافر معجزانہ طور پر اس حادثے میں محفوظ رہے تھے۔
حادثے کی ممکنہ وجوہات کے حوالے سے پاکستان میں تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ ایوی ایشن ماہرین کہتے ہیں کہ طیارے کا بلیک باکس ہی حادثے کی درست وجوہات کے تعین میں مدد دے سکتا ہے۔
بلیک باکس ہے کیا؟
پاکستان ایئر لائنز پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) کے جوائنٹ سیکریٹری اور ایئر بس اے 320 کے پائلٹ قاسم قادر کے بقول جہاز کا یہ پرزہ نام کی طرح کالا نہیں ہوتا۔ لیکن یہ دو حصوں، ڈیجیٹل فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر (ڈی ایف ڈی آر) اور کاک پٹ وائس ریکارڈ (سی وی آر) پر مشتمل ہوتا ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر عابد راؤ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پہلے یہ ریکارڈنگ اور ڈیٹا صرف آخری 30 منٹ کی پرواز تک محدود ہوا کرتا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن وقت کے ساتھ اس میں بہتری آئی اور اب اس میں زیادہ طویل ریکارڈنگز موجود ہوتی ہیں۔ لہذٰا یہ حادثے کی وجوہات جاننے میں مدد دیتا ہے۔
ڈی ایف ڈی آر اور سی وی آر کیا معلومات دیتے ہیں؟
عابد راؤ کا کہنا تھا کہ ڈی ایف ڈی آر اور سی وی آر کی مدد سے ماہرین ایک طرح سے پرواز کے دوران ہر گفتگو اور پائلٹس کے ہر اقدام کا ازسر نو جائزہ لیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ تیکنیکی تفصیلات درکار ہوتی ہیں جو بلیک باکس فراہم کرتا ہے۔
کیپٹن قاسم کے مطابق فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر میں اس پرواز کی تمام تیکنیکی سرگرمیوں کا مکمل ریکارڈ ہوتا ہے۔ یعنی کس موقع پر انجن تھرسٹ کی پوزیشن کیا تھی؟ لینڈنگ گیئر کے استعمال، جہاز کے فلیپس اوپر نیچے کیے جانے تک کی تفصیلات اسی ڈیٹا کا حصہ ہوتی ہیں۔
لیکن ان کے بقول یہ تمام معلومات کوڈ کی شکل میں موجود ہوتی ہیں جن کو ڈی کوڈ کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیوں کہ ایئر بس کے ساتھ حادثہ پیش آیا ہے تو اسے بنانے والی کمپنی ہی اس کوڈ کو ڈی کوڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ماہرین کے بقول کاک پٹ وائس ریکاڈر میں اس گفتگو کی عام ریکارڈنگ ہوتی ہے جو کاک پٹ میں پایلٹس کے درمیان ہوتی ہے یا پھر جو ایئر ٹریفک کنٹرول روم سے کی جا رہی ہوتی ہے۔
کیپٹن قاسم قادر کا کہنا تھا کہ یہ معلومات بہت اہم ہوتی ہیں کیوں کہ ان سے نہ صرف حادثے سے پہلے کی صورتِ حال کا پتا چلتا ہے۔ بلکہ اس گفتگو میں طیارے کو اس سے قبل پیش آنے والے تیکنیکی مسائل کی بھی تفصیل ہوتی ہے۔ جو لامحالہ تحقیقات میں مددگار ہوتی ہے۔
سی وی آر ہو یا ڈی ایف ڈی آر، دونوں کی مدد سے ماہرین ان وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی وجہ سے حادثہ پیش آتا ہے۔
کیپٹن قاسم قادر کے مطابق ان معلومات کو اکٹھا کرنے کا مقصد ہرگز کسی پر الزامات لگانا یا حادثے کا ذمہ دار ٹھیرانا نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی مدد سے اس مخصوص طیارے کی تیاری میں ممکنہ نقص، اس میں کسی فنی خرابی کو دُور کرنا اور پائلٹس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا ہوتا ہے۔
بلیک باکس تباہ کیوں نہیں ہوتا؟
یہ ایک عام سوال ہے جو اکثر افراد کرتے ہیں کہ اتنی تباہی اور سیکڑوں جانوں کے ضائع ہو جانے کے بعد بھی صرف یہی معلومات کیسے محفوظ رہتی ہیں؟
اس کا جواب دیتے ہوئے کیپٹن قاسم نے بتایا کہ اس باکس کی ساخت جہاز سے بالکل مختلف ہوتی ہے یہ آگ اور شدید دباؤ کو سہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن کیپٹن قاسم نے بتایا کہ طیارہ زیادہ بلندی سے زمین پر گرا ہو تو معلومات ضائع ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ پی آئی اے کا طیارہ کیوں کہ نچلی پرواز کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا تو غالب امکان ہے کہ تمام ڈیٹا محفوظ ہو گا۔
کیپٹن قاسم نے بتایا کہ ماضی میں ایسے کئی حادثے پیش آ چکے ہیں جن میں بلیک باکس نہیں مل سکا۔ اس لیے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پرزہ ہمیشہ ہی مل جاتا ہے۔
کیا جہاز کی ساخت بلیک باکس جتنی مضبوط نہیں ہو سکتی؟
ذہن میں اٹھنے والے اس سوال کے جواب میں کیپٹن قاسم نے کہا کہ جہاز کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد اس بلیک باکس کے مقابلے میں کئی درجے کم وزنی ہوتا ہے۔ لہذٰا کسی طور بھی اس کی بناوٹ میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی ورنہ طیارہ پرواز ہی نہیں بھر سکے گا۔
عابد راؤ کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ طیارہ سازی میں جدت آ رہی ہے۔ اُن کے بقول 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں جہازوں کے پر آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ وزنی اور ناپائیدار ہوتے تھے۔
آج کل طیارہ ساز کمپنیاں ایسا میٹریل استعمال کرتی ہیں جو مضبوطی کے ساتھ ساتھ ہلکا بھی ہوتا ہے، لہذٰا بلیک باکس کی طرز پر جہاز کی باڈی نہیں بنائی جا سکتی۔
خیال رہے کہ پی آئی اے طیارے کا بلیک باکس لینے اور جائے حادثہ کا معائنہ کرنے ایئر بس کی ٹیم بھی کراچی میں موجود ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلیک باکس کے ذریعے معلومات کی فراہمی میں کئی ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔