|
امریکی وزیرخارجہ انٹنی بلنکن نے جمعے کو ترکیہ سے کہا ہے کہ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اسے شام میں لازمی طور پر داعش کو سر اٹھانے سے روکنے کا کام کرنا ہو گا۔
بلنکن نے اس یہ بھی کہا کہ انہوں نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی تک پہنچنے کے مثبت اشارے دیکھے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب وہ اسلام پسند ایچ ٹی ایس کے باغیوں کے ہاتھوں بشار الاسد خاندان کی پانچ عشروں پر محیط جابرانہ حکمرانی کے خاتمے کے بعد خطے کے اپنے دورے پر ہیں۔
ایک امریکی عہدے دار نے بتایا ہے کہ بلنکن جمعرات کی شام ترکیہ کے لیے روانہ ہوئے تھے اور انہوں نے انقرہ کے ہوائی اڈے پر صدر رجب طیب ایردوان سے ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک بات چیت کی۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ امریکہ نے داعش،( آئی ایس آئی ایس) کی علاقائی خلافت کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے کئی برسوں تک بہت محنت کی ہے اور بہت کچھ دیاہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنی ان کوششوں کو جاری رکھیں گے۔
امریکی وزیر خارجہ انقرہ میں ترکیہ کے اپنے ہم منصب حقان فیدان کے ساتھ۔ 6 نومبر 2024
ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے بلنکن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ جلد از جلد شام میں استحکام کو یقینی بنانے اور داعش کے جہادیوں کو وہاں پاؤں جمانے سے روکنے کے لیے پرعزم ہے۔
صدر ایردوان نے بلنکن کو یقین دلایا کہ ان کا ملک شام میں داعش کے خلاف لڑائی میں کبھی نرمی نہیں برتے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکیہ داعش کے خلاف اپنی جنگ کو کمزور نہیں ہونے دے گا کیونکہ انقرہ اس گروپ کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن ترکیہ کے صدر ایردوان سے صدرتی محل میں مصافحہ کر رہے ہیں۔ 6 جنوری 2024
کرد عسکری گروپ ایس ڈی ایف پر اختلاف
جب اسلامی باغی گروپ ایچ ٹی ایف نے دمشق کی جانب پیش قدمی کا آغاز کیا تو ترکیہ نے بھی کرد عسکری گروپ ایس ڈی ایف کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔ ترکیہ ایس ڈی ایف کو کردستان ورکرز پارٹی کی توسیع کے طور پر دیکھتا ہے جو کئی عشروں سے ترکیہ میں شورش کر رہی ہے۔
جب کہ دوسری جانب امریکہ ایس ڈی ایف کو اپنے ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے جس نے 2019 میں داعش کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
کرد امور کے ایک تجزیہ کار فائق بلوت نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکیہ ممکنہ طور پر کرد جنگجوؤں کو خطے سے پاک کرنے کے لیے اس خلا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
SEE ALSO: ترکیہ: شامی حکومت حزب اختلاف سے مفاہمت کرے، ایران اور روس کے ساتھ سہ فریقی اجلاس کا اعلانان کا خیال تھا کہ اس صورت حال کے پیش نظر ایردوان امریکہ کے آئندہ کے صدر ٹرمپ بات چیت کے دوران بہتر پوزیشن میں ہو سکتے ہیں، کیونکہ ترکیہ کے پاس طاقت ور فوج ہے اور اس کا بشار الاسد کا تختہ الٹنے والے باغی گروپ پر اثر و رسوخ ہے۔
غزہ کی جنگ اور جنگ بندی کے اشارے
انقرہ میں ترکیہ کی قیادت سے ملاقات کے موقع پر بلنکن نے غزہ کی جنگ پر بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دو ہفتوں کے دوران انہوں نے حوصلہ افزا علامات دیکھی ہیں اور ان کے خیال میں جنگ بندی کا موقع موجود ہے۔
SEE ALSO: حماس سیاسی دفترکی ترکیہ منتقلی کی رپورٹوں پر امریکی ردعمل، انقرہ کی تردیدامریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اس معاہدے کے بارے میں بات کی جو جنگ کو ختم کر سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ترکیہ کے کردار کو سراہتے ہیں۔ وہ اس جنگ کے اختتام پر پہنچانے کے لیے اپنی آواز استعمال کر سکتا ہے۔
ترکیہ کے طویل عرصے سے حماس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ اس فلسطینی تنظیم کو اکثر مغربی ملکوں طرح ایک دہشت گرد گروپ کی بجائے قومی آزادی کی ایک تحریک کے طور پر دیکھتا ہے۔
(اس رپورٹ کی معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)