آئی ایم ایف، سعودی عرب سے پاکستان کو قرض ملنے کی ضمانت کیوں چاہتا ہے؟

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی آیم ایف) پاکستان کو قرض کی اگلی قسط کے اجرا سے قبل پاکستان کے دوست ملک سمجھے جانے والے سعودی عرب سے بھی یقین دہانی حاصل کرنا چاہ رہا ہے کہ وہ اسلام آباد کی مزید معاشی مدد کرے گا۔

بتایا جارہا ہے کہ اس مقصد کے لیے پاکستانی حکام بھی سعودی عرب سے رابطے میں ہیں۔ اُدھر آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ پاکستان کو رواں مالی سال کے دوران بیرونی قرضوں کی واپسی اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صرف فنڈ کی جانب سے نئے قرضوں کا اجرا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے مزید اقدامات کی بھی ضرورت ہو گی۔

ایسے میں سعودی عرب کو قائل کیا جارہا ہے کہ وہ فنڈ کے ممبر کے تحت حاصل خصوصی حقوق یعنی اسپیشل ڈرائنگ رائٹس کا استعمال کرتے ہوئے تقریباً چار ارب ڈالرز کی فراہمی پاکستان کو ممکن بنائے۔

پاکستان کی وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر اور ماہر معاشیات ڈاکٹر خاقان حسن نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس وقت حال ہی میں ختم ہونے والے مالی سال میں بھاری تجارتی خسارہ(48 ارب ڈالرز)، جاری کھاتوں کا خسارہ (17 ارب ڈالرز) اور پھر بھاری بجٹ خسارہ (گزشہ مالی سال کے پہلے نو ماہ میں 2565 ارب روپے) درپیش ہے۔

تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق مرکزی بینک کے پاس محض 9.3 ارب ڈالرز کے ذخائر بچے ہیں ۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو کن بڑے معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس لیے پاکستان کو اپنی معاشی حالت کو سدھارنے اور مارکیٹس کو اعتماد دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری ملنے کو یقینی بنانا ہوگا۔

Your browser doesn’t support HTML5

بار بار آئی ایم ایف جانا ہماری نااہلی ہے، مشاہد حسین


ڈاکٹر خاقان حسن نجیب کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے جب پاکستانی حکام کے ساتھ بیٹھ کر اس کی بیرونی ادائیگیوں کا حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ وہ رواں سال تقریبا 35 ارب ڈالرز کے لگ بھگ کی رقم ہ درکار ے جو پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کا 27 فی صد بنتی ہے۔

اس میں آنے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان نے دوست ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے رابطہ قائم کیا۔ قطر کو تیل اور ایل این جی کی ادائیگیوں کو موخر پر دینے کے لیے قائل کیا جارہا ہے۔

متحدہ عرب امارات کو اسٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ سرکاری کمپنیوں کے شئیرز کی خریداری اور کچھ پاور پلانٹس میں سرمایہ کاری پر راضی کیا جا رہا ہے جب کہ ان ممالک کو مرکزی بینک میں براہ راست ڈپازٹس رکھنے پر بھی مذاکرات کیے جارہے ہیں۔

دوسری جانب سعودی عرب سے بھی درخواست کی جا رہی ہے کہ پاکستان اس کے بین الاقوامی فنڈ میں اسپیشل ڈرائنگ رائٹس کے ذریعے چار ارب ڈالرز فراہم کرے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ پاکستان ان ایس ڈی آرز کو رواں سال دسمبر تک استعمال کرنے کے قابل ہوگا۔ لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے حتمی منظوری سے قبل اور ڈیفالٹ کے خطرے کو دور کرنے کے لیے ان کی یقین دہانیاں حاصل کرنا ضروری ہیں۔

ادھر حکومت نے بھی رابطوں کی سرکاری طور پر تصدیق کی ہے تاہم وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق اس حوالے سے کوئی بھی چیز اب تک مکمل طور پر طے نہیں ہوسکی ہے۔ جب کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں حالیہ دنوں میں بڑی کراوٹ کے باوجود پاکستان "باآسانی" اپنی بیرونی ادائیگیوں سے نبرد آزما ہوجائے گا۔
تاہم ماہرین معیشت خبردار کررہے ہیں کہ پاکستان کے پاس بمشکل دو ماہ کی درآمدات کے لیےزرِمبادلہ کے ذخائر بچے ہیں جب کہ حکومت کی جانب سےجاری کردہ بانڈز پر شرح سود مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔

پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک ارب ڈالرز کے بانڈز کی میچورٹی رواں سال کے آخر میں ہونے جارہی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق مصر اور سری لنکا کے بعد پاکستان کو رواں سال سب سے زیادہ فنانسنگ کی ضرورت ہے۔