حکومتِ پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان قرض پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حکومت پرامید ہے کہ اسے جلد قرض کی قسط موصول ہو جائے گی۔
آئی ایم ایف کے ایک نمائندے نے وائس آف امریکہ کے اسد اللہ خالد کو بتایا ہے کہ آئی ایم ایف اسٹاف اور پاکستانی حکام کے درمیان معاشی استحکام کے لیے پالیسی پر بات چیت ہو رہی ہے جس کے دوران آئندہ مالی سال کے بجٹ پر اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
البتہ آئی ایم ایف نے واضح کیا ہے کہ مذاکرات ابھی اسی نہج پر نہیں پہنچے کہ پاکستان کو 90کروڑ ڈالر کی اگلی قسط جاری کی جا سکے۔
دوسری جانب پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان قسط کے لیے ہونے والے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔
وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا پیر کو میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے ایک سے دو روز میں مذاکرات مکمل ہو جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال میں آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں دوبارہ جلد از جلد شامل ہونا ناگزیر ہوچکا ہے۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت کو اپنے قیام سے اب تک ڈھائی ماہ ہو چکے ہیں اور معاشی استحکام کے لیے حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے مذاکرات بھی طویل ہوتے جا رہے ہیں۔
حکومت کے ابتدائی ڈھائی ماہ کے دوران ایک ڈالر کی قیمت میں 25 روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے جس سے نہ صرف ملک کے ذمے واجب الادا قرضوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
معاشی ماہر اور سابق سیکریٹری خزانہ وقار مسعود کہتے ہیں حکومتِ پاکستان نے آئی ایم ایف کی بیشتر تجاویز پر عمل درآمد کرد یا ہے جس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی کی واپسی شامل ہے۔
ان کے بقول ملک کو درپیش معاشی صورتِ حال میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اسمبلی میں پیش کردہ بجٹ، آئی ایم ایف کی ہدایات سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔