سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری ایڈووکیٹ کو تھانہ بارہ کہو میں درج دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد کے تھانہ ترنول میں درج دہشت گردی اور بغاوت کے کیس سمیت پولیس اہل کاروں پر حملے کے کیس میں عدالت نے ایمان مزاری کی ضمانت منظور کر لی تھی۔
پیر کو انسدادِ دہشت گردی عدالت اسلام آباد نے بغاوت اور اشتعال پھیلانے کے کیس میں ایمان مزاری اور علی وزیر کی ضمانت منظور کر لی جس کے بعد ایمان مزاری کو اڈیالہ جیل سے رہا کیا جانا تھا۔ لیکن جیل کے دروازے پر اسلام آباد پولیس کے اہل کار موجود تھے جنہوں نے انہیں بھارہ کہو میں درج مقدمے میں گرفتار کر لیا۔
اس سے قبل انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے علی وزیر اور ایمان مزاری کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت کی۔
ایمان مزاری کی جلسے میں تقریر کا اسکرپٹ پڑھ کر سنایا گیا۔ سماعت میں پراسیکیوٹر نے ایمان مزاری کی تقریر کے حصوں کو ریاست کے خلاف قرار دیا اور ضمانت کی مخالفت کی۔ پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ابھی تک یو ایس بی کی رپورٹ نہیں آئی اور تقریب کی فرانزک کروانی ہے۔
دلائل سننے کے بعد عدالت نے 30، 30 ہزار روپے مچلکوں کے عوض ایمان مزاری اور علی وزیر کی ضمانت منظور کر لی۔ بعد ازاں ایمان مزاری کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا تاہم انہیں رہا کرتے ہی اڈیالہ جیل کے باہر سے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔
دوبارہ گرفتاری کے بعد ایمان مزاری نے پولیس وین سے وکیل کو ضروری ہدایات دیں۔
ایمان مزاری کی دوبارہ گرفتاری کے حوالے سے اسلام آباد پولیس کا مؤقف بھی سامنے آیا ہے جس میں پولیس نے کہا ہے کہ ایمان مزاری کو تھانہ بھارہ کہو میں درج مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے، ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے۔
ایمان زینب مزاری کی گرفتاری کے حوالے سے اسلام آباد پولیس کی طرف سے تصدیق تو کی گئی ہے لیکن بھارہ کہو میں درج مقدمے کے حوالے سے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی کہ یہ مقدمہ کب اور کس واقعے کی وجہ سے درج کیا گیا ہے۔
علی وزیر کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا جب کہ ایمان مزاری کو 20 اگست کی صبح ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایمان مزاری کے خلاف کیس کیا ہے؟
اسلام آباد کے ترنول پولیس اسٹیشن اور محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پولیس اسٹیشن میں علی وزیر اور ایمان مزاری کے خلاف پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے جلسے میں قابلِ اعتراض تقاریر کرنے اور کارِ سرکار میں مداخلت کرتے ہوئے سڑک بند کرنے کے الزام کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔
اس جلسے کی ویڈیوز کی بنا پر مقررین کو جبری گمشدگیوں کے معاملے پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
کارِ سرکار میں مداخلت پر تھانہ ترنول میں درج مقدمے میں ایمان مزاری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں دو ستمبر کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
عدالت نے اسی مقدمے میں علی وزیر کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 22 اگست کو متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
22 اگست کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے بغاوت، دھمکانے اور اشتعال پھیلانے کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں علی وزیر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جب کہ اسی مقدمے میں ایمان زینب مزاری کی ضمانت منظور کر لی تھی۔
ایمان مزاری دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج دوسرے مقدمے میں تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں تھیں۔ تاہم پیر کو اس مقدمے میں بھی ان کی ضمانت منظور کر لی گئی تھی لیکن پولیس نے انہیں جیل کے باہر سے گرفتار کرلیا ہے۔
ایمان زینب مزاری اسلام آباد میں بلوچ طلبہ کے خلاف درج مقدمات، جبری گمشدگیوں سمیت انسانی حقوق کے حوالے سے مختلف کیسز میں عدالتوں میں پیش ہوتی رہتی ہیں۔