معاشی انحطاط، روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں حائل: رپورٹ

تامل نادو، گارمینٹ فیکٹری (فائل)

محنت کے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 83 کروڑ 90 لاکھ کارکن، جو دنیا بھر کے کارکنوں کی تعداد کا ایک چوتھائی ہیں، یومیہ دو ڈالر یا اِس سے بھی کم آمدن پر زندگی گزار رہے ہیں
محنت کے بین الاقوامی ادارے (آئی ایل او) کا کہنا ہے کہ عالمی معاشی انحطاط کےباعث دنیا بھر میں روزگار کی فراہمی کی صورتِ حال میں ابتری آئی ہے۔

اپنی رپورٹ میں، ادارے نے پیر کے دِن بتایا کہ 2013ء میں تقریباً 20 کروڑ کارکنوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے، جو اعداد و شمار گذشتہ برس کے مقابلے میں 50 لاکھ زیادہ ہیں۔

جنیوا میں قائم اس گروپ کا کہنا ہے کہ روزگار میں اضافہ مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے خطوں میں دیکھنے میں آیا، جس کے بعد افریقہ کے سب سہارا علاقہ اور یورپ آ جاتا ہے۔

ایسے میں جب بحالی سست روی کا شکار ہے، محنت کے بین الاقوامی ادارے کا کہنا ہے کہ مزید دو کروڑ 30 لاکھ کارکن روزگار کی تلاش میں ناکام رہے، جنھیں محنت کی منڈی کے شمار سے باہر رکھا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوجوانوں کو روزگار حاصل کرنے میں خصوصی مشکل درپیش ہے، جب کہ 2013ء میں 15 سے 24 برس کی عمر کے سات کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد سے روزگار چھینا گیا۔ نوجوانوں کے روزگار کی شرح 13 فی صد سے زیادہ ہے جو عالمی سطح پر بے روزگاری کی مجموعی شرح سے دوگنا سے زیادہ ہے۔

ادارے کے ڈائریکٹر جنرل، گائے رائیڈر کا کہنا ہے کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ قائدین فوری توجہ دے کر مناسب پالیسی وضع کریں۔ اُنھوں نے کہا کہ مضبوط کوششیں ضروری ہیں، تاکہ صنعت کاری کو بڑھاوا دیا جا سکے تاکہ روزگار کے زیادہ مواقع فراہم ہو سکیں۔

محنت کے بین الاقوامی ادارے نے پیش گوئی کی ہے کہ اگلے چند سالوں کے دوران بے روزگاری کی شرح میں گراوٹ آسکتی ہے، اور اندازا لگایا گیا ہے کہ 2018ء تک بے روزگاروں کی تعداد 21 کروڑ 50 لاکھ سے کچھ زیادہ ہوگی۔

ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کام کرنے والوں کے حالات میں قدرے بہتری آرہی ہے، لیکن پچھلے عشروں کو مد نظر میں رکھتے ہوئے، گذشتہ سہ ماہی میں صورتِ حال مندی کا شکار رہی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 83 کروڑ 90 لاکھ کارکن، جو دنیا بھر کے کارکنوں کی تعداد کا ایک چوتھائی سے زیادہ ہیں، یومیہ دو ڈالر یا اِس سے بھی کم آمدن پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔