ایک وقت تھا جب بچوں کے پاس دیکھنے کو یا تو مختصر کارٹون ہوتے تھے یا پھر سیریز۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اب بچوں کے رجحانات اور شوق بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ اب ہمارے بچے مغربی سپر ہیروز سے خاصے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اب چاہے وہ اسپائیڈر مین ہو یا بیٹ مین، آئرن مین ہو پھر سپر مین، یہ ہی بچوں کے دل و دماغ پر چھائے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل کی نئی نسل زندگی کے حقیقی سپر ہیروز سے کم ہی واقف ہے۔
اسی بات کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان کی ماریہ ریاض نے یہ ٹھان لیا کہ بچے یہ جانیں کہ ہمارے اردگرد کیسی کیسی ہستیاں موجود ہیں جو اصل میں سپر ہیروز کا درجہ رکھتی ہیں۔ ماریہ نے یہ کام ڈیڑھ برس قبل شروع کیا۔ ان کا شوق السٹریشن (خاکوں کے ذریعے کچھ واضح کرنا) ہے اور اسی کے ذریعے انھوں نے ایک کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا جس میں عبدالستار ایدھی کو سپر ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ماریہ ریاض کا تعلق یوں تو لاہور سے ہے, لیکن ان دنوں وہ مظفر آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ این سی لاہور سے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں بیچلرز اور ملٹی میڈیا میں ماسٹرز کرنے کے بعد انھوں نے مختلف اداروں میں نوکری کی۔ لیکن شادی اور بچوں کے بعد سے اب وہ گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جب وہ یہ السٹریشن کیا کرتی تھیں تو ان کا پانچ سالہ بیٹا یہ سب دیکھا کرتا تھا اور ان سے پوچھا کرتا تھا کہ وہ کیا کر رہی ہیں؟ یہ کن کی تصویر ہے؟ انھوں نے ہر صفحہ ڈیزائن کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو دکھایا اور اس سے رائے طلب کی۔ انھیں اس بات کی سب سے زیادہ خوشی ہے کہ اب ان کی دو سالہ بیٹی بھی ایدھی بابا کو جانتی ہے۔
ماریہ کا کہنا ہے کہ وہ شروع سے چاہتی تھیں کہ اپنے آرٹ کے ذریعے اپنے علاوہ دوسروں کی بہتری کی خاطر بھی کچھ کر سکیں۔ اسی وجہ سے اس کتاب کو بناتے وقت ان کے ذہن میں یہی تھا کہ اس کی فروخت کا پچاس فیصد حصہ ایدھی فاونڈیشن کو جائے۔ اسی مقصد نے ان کے عمل کو تکمیل تک پہنچایا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے انسانیت کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور جو نام سب سے پہلے میرے ذہن میں آیا وہ ایدھی صاحب کا ہی تھا جن کی خدمات کا دائرہ انتہائی وسیع ہے۔ جب اس پر کتاب لکھی تو دوسرا مقصد یہ بن گیا کہ بچوں کو کس طرح بتایا جائے تو اس کے لئے میں نے سپر ہیرو کی طاقت اور اس کی زبان کو استعمال کیا کیونکہ ہمارے بچے ویسٹرن سپر ہیروز سے اتنے متاثر ہیں کہ انھیں وہی زبان سمجھ میں آتی ہے۔
میں نے اس کتاب کے توسط سے بتایا کہ ایدھی بابا کتنے سادہ طبیعت اور کتنے رحمدل تھے کہ ان کی ساری طاقت اس بڑے دل میں تھی جس کی وجہ سے وہ انسانیت کی خدمت کرتے تھے اور اچھائی پھیلاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کی پبلشنگ کے بعد اصل کام اس کی ترسیل کا تھا۔ لیکن اس پر جب بات نہ بن سکی تو میں نے آن لائن ہی اس کی تشہیر کا کام شروع کیا۔ میں اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتی تھی کہ اسے اتنی جلدی پذیرائی مل جائے گی۔
ماریہ کا کہنا ہے کہ بچوں سے کہیں زیادہ والدین کی جانب سے مجھے پذیرائی ملی کیونکہ آج کل کے والدین اس بات کے بارے میں زیادہ حساس ہیں کہ ان کے بچے کیا دیکھ رہے ہیں کیا پڑھ رہے ہیں۔ وہ اس کتاب کو دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہوئے۔ کچھ نے اپنے بچوں کی اس کتاب کے ساتھ ویڈیوز اور تصاویر بنا کر مجھے بھیجیں جس سے میرا حوصلہ بلند ہوا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ماریہ نے بتایا کہ ان کی کتاب ایدھی بابا بچوں کے لئے ایک تعارف تھا۔ اب مستقبل میں وہ چاہتی ہیں کہ ایدھی صاحب کی جو بھی خدمات رہی ہیں چاہے وہ بچوں کو گود لینے کے حوالے سے ہو یا ایمبولینس اور دیگر خدمات، وہ آنے والے وقت میں اس حوالے سے بچوں کو ان تمام کاموں سے روشناس کرائیں گی جو ایدھی صاحب نے کئے۔