امریکہ میں رمضان المبارک کے دوران مسلمان تنظیمیں بہت متحرک نظر آتی ہیں۔ مختلف تقریبات کے ذریعے، وہ اراکینِ کانگرس کے ساتھ اپنے رابطوں میں اضافہ کرتی ہیں، تاکہ اس معاشرے میں امریکی مسلمانوں کے کردار کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل کے حل کے لیے سیاست دانوں سے بات کر سکیں۔
ایسی ہی ایک افطار امریکی کانگریس کی عمارت میں منعقد کی گئی، جہاں مقامی مسلمان اور پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ امریکی ایوانِ نمائندگان کے اراکین نے بھی شرکت کی۔
مغرب کی اذان کے ساتھ مقامی مسلمانوں اور امریکی اراکین کانگریس نے ساتھ میں روزہ افطار کیا۔
نیو یارک سے کانگریس وومین، گریس منگ نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں یہاں دارلحکومت میں مسلمان شہریوں کے ساتھ ہوں، جو رمضان کا مقدس مہینہ منا رہے ہیں‘‘۔
امریکی مسلمانوں اور قانون سازوں کی اس مشترکہ افطار کا اہتمام مسلم پبلک افیئرز کونسل اور پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (پاک پیک) اور دیگر تنظیموں کے اشتراک سے کیا گیا تھا، جن کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں خاص طور سے وائٹ ہاؤس میں پہلا افطار ڈنر سال 1805 میں صدر تھامس جیفیرسن کے دور میں ہوا۔
’پاک پیک‘ کی صدر رفعت چغتائی نے کہا کہ کئی دہائیوں میں یہ پہلا سال ہے جب وائٹ ہاؤس اور محکمہٴ خارجہ میں افطار نہیں ہو رہی۔ تو اس وجہ سے ہم ایک نکتہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اہمیت رکھتے ہیں، جبکہ ’ایم پیک‘ کے صدر سلام الماریاتی نے کہا کہ میرے خیال میں، آج امریکی سیاست میں مشترکہ مفادات کا پہلو نظر نہیں آ رہا۔ امریکہ کی عظمت یہ تھی کہ اس نے دنیا کے مختلف لوگوں کو اکٹھا کیا تھا۔ اور یہاں اراکین کانگریس اور قانون سازوں کو مسلمان کمیونٹی کے ساتھ روزہ افطار کرنے کےلیے بلانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم ان سے بات چیت کریں، انھیں اپنے مسائل اور تحفظات سے آگاہ کریں۔
اس افطار ڈنر میں شریک قانون سازوں نے بھی مسلمان اور پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ یکجہتی اور رمضان المبارک کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ورجینیا کے اٹارنی جنرل مارک ہیرنگ نے کہا کہ یہ ایک موقع ہے کہ ہم پاکستانی اور مسلمان امریکیوں کے ساتھ روزہ افطار کر رہے ہیں جو کمیونٹی میں بہت متحرک ہیں؛ جبکہ کیلیفورنیا سے منتخب رکن کانگریس ایرک سوالویل نے کہا کہ وہ اس مقدس مہینے میں مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھے، اسی لیے وہ خاص طور سے یہاں آئے ہیں۔
نیو یارک سے کانگریس مین، مائیک کوائگلی نے اس بات پر زور دیا کہ دوسرے لوگوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کی زندگی کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ ان کے طور طریقوں اور مسائل کو سمجھنا پڑتا ہے اور ایسے ہی ہم ایک دوسرے کے لیے برداشت پیدا کر سکیں گے۔
اس افطار میں موجود نوجوانوں کے لیے بھی یہ ایک موقع تھا کہ وہ امریکی سیاست دانوں کو قریب سے دیکھیں اور سمجھیں۔
مہرین سعید ایک پاکستانی نژاد امریکی نوجوان ہیں، جن کا کہنا تھا کہ یہ ہم پاکستانیوں کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں بھی شامل کیا جائے، کیونکہ ایسے ہی کبھی پاکستانی امریکن بھی امریکی کانگریس کا حصہ بنیں گے اور پاکستان کے لیے کچھ کر سکیں گے۔
شام کا اختتام امریکہ، پاکستان اور دنیا بھر میں امن کی دعا سے ہوا۔