اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے جمعے کے روز اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ میں اموات، تباہی اور نسل کشی جیسے کسی بھی اقدام کو روکنے کے لیے ہر ممکن کاروائی کرے۔ تاہم عدالتی پینل نےاسرائیل کو جنگ بندی کا حکم دینے سے گریز کیا جو فلسطینیوں کے محصور علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنی ہے۔
اس فیصلے پر دنیا بھر کے ملکوں اور اداروں نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے جن میں سے بیشتر نے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے ۔۔
اس مختصر حکم کے بعد امکان ہے کہ یہ مقدمہ آئندہ کئی برسوں تک عالمی عدالت میں زیر سماعت رہے گا۔
عدالت کے فیصلے پر اسرائیل، فلسطینییوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ملکوں، اداروں اور سربراہان کی جانب سے رد عمل سامنے آیا ہے۔
اسرائیل، حماس اور فلسطینیوں کا ردِعمل
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جنوبی افریقہ کے نسل کشی کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ اپنے ملک اور لوگوں کے دفاع کے لیے جو ضروری ہے ہم وہ جاری رکھیں گے۔
عسکریت پسند تحریک حماس نے فیصلےکا خیر مقدم کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہےکہ وہ اسرائیل سے عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد کا تقاضا کرے۔
فلسطینی اتھارٹی کے وزیر خارجہ ریاض مالکی نےکہا کہ آئی سی جے کے ججز نے حقائق اور قانون کا جائزہ لیا اور انسانیت اور بین الاقوامی قانون کے حق میں فیصلہ دیا۔
امریکہ
امریکہ نے جمعے کو اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے الزامات پر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ بے بنیاد ہیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل کو دیے جانے والے اس حکم کے بعد کہ اسرائیل نسل کشی کے کنونشن کے دائرے میں آنے والی تمام کارروائیوں کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے، امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا، “ہمارا مسلسل یہ خیال ہے کہ نسل کشی کے الزامات بے بنیاد ہیں اور عدالت کو نسل کشی کے بارے میں کوئی شواہد نہیں ملے ہیں اور نہ ہی اس نے اپنے فیصلے میں جنگ بندی کے لیے کہا ہے ۔”
وائٹ ہاؤس میں ایک بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے جب امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی سے یہ سوال کیا کہ کیا صدر کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے کہ اس نے ’نسل کشی‘ کے الزام کو یکسر مسترد نہیں کیا؟ جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ عدالت کا فیصلہ امریکہ کی اسی موقف سے مطابقت رکھتا ہے جس میں وہ بار بار کہتا رہا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتیں محدود کرنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہیئیں۔
’’ ہم نے کئی بار اسرائیل کے ساتھ گفتگو میں موقف اختیار کیا ہے کہ اسرائیل سات اکتوبر کے حملے کے بعد دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا حق رکھتا ہے لیکن ان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ عام شہریوں کی ہلاکتیں کم سے کم ہوں۔ عدالت کا فیصلہ ہماری اسی پوزیشن سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ وہ سب چیزیں ہیں جن پر ہم زور دیتے آئے
SEE ALSO: صدر بائیڈن غزہ میں جنگ بندی کا اشارہ نہیں دے رہے: وائٹ ہاؤسیورپی یونین
یورپی یونین نے جمعے کو کہا کہ اسے توقع ہے کہ اسرائیل اور حماس بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کی پوری طرح سے تعمیل کریں گے۔
یورپی کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ ،” فریقین بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات پر عمل کے پابند ہیں اور انہیں ان پر عمل درآمد کرنا چاہئے۔ یورپی کمیشن نے کہا ہے اسے ان احکامات پر فوری اور موثر عمل درآمد کی توقع ہے ۔”
ترکیہ
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کے مطابق انہیں عدالت سے اس فیصلے کی امید تھی کہ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کے اقدامات اور عام شہریوں کے خلاف “غیر انسانی” حملے روک دینے چاہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ایردوان نے کہا، “میں غزہ میں غیر انسانی حملوں کے حوالے سے انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کی جانب سے کئے گئے عبوری فیصلے کو قابل قدر پاتا ہوں اور اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔”
SEE ALSO: ایردوان کا اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کےمقدمے میں اپنی کوششوں کا اعادہانہوں نے مزید کہا کہ، “ہمیں امید ہے کہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے خلاف اسرائیل کےحملے ختم ہو جائیں گے ۔”
ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ جنگ بندی کے قیام اور امن کے راستے کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری رکھے گا۔
سعودی عرب
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جنگ کے خلاف ہنگامی اقدامات نافذ کرنے کی درخواست پر بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ۔
سعودی عرب نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی "خلاف ورزیوں" کے لیے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرائے۔ ایک بیان میں مملکت کی وزارت خارجہ نے غزہ میں جنگ بندی تک پہنچنے اور فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے "مزید اقدامات" کا بھی مطالبہ کیا۔
SEE ALSO: عالمی عدالت کا مختصرحکم: اسرائیل، جنوبی افریقہ اور ماہرینقطر
خلیجی ملک قطرکی وزارت خارجہ نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے حکم پر عارضی اقدامات کا خیرمقدم کیا اور ایک بیان میں انہیں "انسانیت اور بین الاقوامی انصاف کی فتح" قرار دیا۔
قطر، جہاں حماس کے متعدد سیاسی لیڈر مقیم ہیں، تنازعے میں غزہ پر حکومت کرنے والی تحریک، اور اسرائیلی عہدے داروں کے درمیان ایک مرکزی ثالث کے طور پر کام کرچکا ہے ۔
مصر
مصر کی وزارت خارجہ نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا،” مصر اس کا منتظر تھا کہ بین الاقوامی عدالت انصاف غزہ میں ایک فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرے گی جیسا کہ عدالت نے ایسے کیسز میں فیصلہ دیا تھا۔ “
بیان میں عدالت کے فیصلوں کے احترام اور ان کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
SEE ALSO: اسرائیل اور مصر کے درمیان نیا تنازعجرمنی
جرمنی حماس کے وحشیانہ حملے اور یرغمال بنانے کی کاروائی کی ابتدا سے شدید مذمت کرتا رہا ہے۔ وزیر خارجہ انالینا بئیر بوک نےکہا کہ اسرائیل کو آئی سی جے کے جمعے کے فیصلے کی تعمیل کرنی چاہیے تاہم حماس کو بھی اپنے پاس موجود باقی یرغمالوں کو رہا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے سب سے اہم مسئلے پر فیصلہ نہیں دیا ہے لیکن عبوری لیگل پروٹیکشن پروسیڈنگ کے عارضی اقدامات کا حکم دیا ہے ۔لیکن بین الاقوامی قانون کے تحت ان کی بھی پابندی لازمی ہے، اسرائیل کو اس کی تعمیل کرنی چاہیے۔
بئیر بوک نےمزید کہا، اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی کارروائیاں سات اکتوبر کے وحشت ناک حملے کے بعد ہوئی تھیں اور یہ کہ حماس بھی انسانی ہمدردی کے بین الاقوامی قانون کا پابند ہے اور اسے آخر کار تمام یرغمالوں کو رہا کر دینا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ، ہم اس کی اور ان اقدامات کی بھرپور حمایت کریں گے جن میں اسرائیل سے غزہ میں فوری طور پر مزید امداد کے داخلے کی اجازت کا حکم دیا گیا ہے۔
جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ کے صدر سیریل رامافوسا نے کہا ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے میں غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مبینہ جرائم عیاں کیے گئے ہیں۔
راما فوسا نے یہ بھی کہا کہ ان کا ملک، جس نے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا کیس اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں پیش کیا تھا، اس پر خوش ہے کہ فلسطینی لوگوں کی انصاف کے لیے آوازوں کو اقوام متحدہ کے ایک ممتاز ادارے میں سنا گیا ہے۔
رامافوسا نے فیصلے کے چند گھنٹے بعد ایک لائیو ٹی وی خطاب میں اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ سات اکتوبر کو حماس عسکریت پسندوں کے حملے کے ردعمل میں غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ایک “ اجتماعی سزا “کی کارروائی کر رہا ہے۔
اس پورٹ کا مواد اےے پی ، اے ایف پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے۔