متحدہ عرب امارات کی خواتین کی آئس ہاکی ٹیم کا خواب

Fatima Al Ali - wonem Ice Hockey UAE-3

فاطمہ ایک ایسے موقع پر امریکہ آئی ہیں جب ملک میں صدر ٹرمپ کے جانب سے سات مسلم اکثریتی ملکوں کے شہریوں اور تارکین وطن پر عارضی سفری پابندیاں نافذ ہیں۔

واشنگٹن میں ہاکی ڈپلومیسی کا تازہ ترین تجربے کا آغاز ایک 27 سالہ ایک خاتون نے کیا ہے، جس نے کپتان کی جرسی پہننے کے ساتھ ساتھ سرکو حجاب سے ڈھانپا ہوا تھا۔

متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی فاطمہ العلی اپنی ٹیم کے ساتھ امریکہ کا دورہ کررہی ہیں۔

بدھ کی سہ پہر واشنگٹن کے ورائزن سینٹر میں، جہاں اور بھی کئی ملکوں کے کھلاڑی جمع تھے، پریکٹس کے بعد انہوں نے صحافیوں سے بات کی۔

روانی کے ساتھ انگریزی بولنے والی فاطمہ نے بتایا کہ آئس ہاکی انہیں بچپن ہی سے پسند ہے۔

ہاکی سے اپنی دلچسپی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس کا شوق انہیں انگریزی کارٹون فلموں سے ہوا جو وہ پچپن سے دیکھتی آ رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئس ہاکی فٹ بال سے زیادہ دلچسپ کھیل ہے۔

اپنے کھیل کے آغاز کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 2008 میں انہوں نے ایک مال میں مردوں کے آئس ہاکی ٹورنامنٹ کے متعلق ایک بروشر دیکھا اور اپنا کیمرہ اٹھا کر وہاں چلی گئیں۔ اس کلب کا نام أبو ظہبی سٹارمز تھا۔ انہوں نے مجھے اپنی ٹیم کا فوٹو گرافر مقرر کر دیا۔ اور پھر انہوں نے 2010 میں خواتین کی بھی ایک ٹیم بنائی جس میں ٹین ایجر کے ساتھ ساتھ وہ خواتین بھی شامل تھیں جن کی عمریں 30 کے عشرے میں تھیں۔ مجھے بھی خواتین کی ٹیم میں شرکت کی پیش کش کی گئی اور بالآخر میں بھی اس ٹیم کا حصہ بن گئی۔

فاطمہ نے بتایا کہ ابوظہبی میں آئس ہاکی کا صرف ایک میدان ہے جو عموماً مرد کھلاڑیوں کے استعمال میں ہوتا ہے۔ خواتین کھلاڑیوں کی قریب ترین حریف ٹیم دبئی میں ہے جو ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ آئس ہاکی کے داؤ پیچ سیکھنے کے لیے وہ یوٹیوب پر کراسبی اور پیول ڈاٹسیک جیسے مشہور کھلاڑیوں کی ویڈیوز دیکھتی ہیں۔

فاطمہ العلی اپنے چھوٹے بھائی محمدکے ساتھ اس ہفتے واشنگٹن پہنچی تھیں۔

فاطمہ ایک ایسے موقع پر امریکہ آئی ہیں جب ملک میں صدر ٹرمپ کے جانب سے سات مسلم اکثریتی ملکوں کے شہریوں اور تارکین وطن پر عارضی سفری پابندیاں نافذ ہیں۔ متحدہ عرب امارات، جو ایک امریکی اتحادی ہے، ان ملکوں میں شامل نہیں ہے۔ فاطمہ اس موضوع پر بات کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن ان کے چھوٹے بھائی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ واشنگٹن آتے ہوئے وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کے اس دورے سے یہاں کے لوگوں کو یہ پیغام ملے گا کہ مشرق وسطیٰ یا متحدہ عرب امارات میں کیا فرق ہے۔ ہم آپ لوگوں جیسے ہی ہیں۔

متحدہ عرب امارات کی خواتین کی آئس ہاکی ٹیم ریاست میری لینڈ کی خواتین کی ٹیم کے ساتھ پریکٹس میچ کھیلے گی۔

فاطمہ کا کہنا تھا کہ آئس ہاکی کھیلنا ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔

انہوں نے نامہ نگاروں سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ کھلاڑ یوں کی اس نسل کو یہ إحساس ہے کہ دنیا میں تنوع ہے اور ہمارا کھیل سب کے لیے ہے۔

ٹیم کے کوچ ٹروٹز نے اس موقع پر کہا کہ ان لڑکیوں کے مسکراتے چہرے اور انہیں کھیلتا دیکھ کر، میرا خیال ہے کہ معاشرے کو ایک اچھا پیغام جاتا ہے۔