پاکستان اور سری لنکا نے یہ کہہ کر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا کہ مسودے پر سوچ بچار کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
اسلام آباد —
کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی کے انتظامی و مالی معاملات کے ترمیمی مسودے کی منظوری کے بعد یہ اختیارات ’’بگ تھری‘‘ کو حاصل ہوگئے ہیں۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی طرف سے ہفتہ کو جاری بیان کے مطابق سنگاپور میں ہونے والے اجلاس میں قرارداد کے حق میں دس ممبر ملکوں میں سے آٹھ نے ووٹ دیے۔
پاکستان اور سری لنکا نے یہ کہہ کر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا کہ مسودے پر سوچ بچار کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
آئی سی سی کے انتظامی و مالی معاملات پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بھارت نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ساتھ مل کر یہ تجویز پیش کی تھی۔
اس قرارداد کی منظوری کے بعد کرکٹ کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ان تینوں ملکوں کے بورڈز کو ملے گا۔
بیان کے مطابق بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر این سری نواسن رواں سال جولائی میں آئی سی سی بورڈ کے سربراہ جب کہ کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ویلے ایڈورڈ نئی تشکیل شدہ ایگزیکٹو کمیٹی کی سربراہی سنبھالیں گے۔
پاکستان، سری لنکا اور جنوبی افریقہ ’’بگ تھری‘‘ کے اس منصوبے سے متفق نہیں تھے لیکن ہفتہ کو ہونے والی ووٹنگ میں جنوبی افریقہ نے اس کے حق میں ووٹ دے کر قرارداد کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان میں کرکٹ کے حلقوں میں بگ تھری منصوبے کی شروع ہی سے مخالفت میں آوازیں اٹھتی رہی ہے اور اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ کرکٹ کے کھیل کے لیے بھی سودمند نہیں ہوگا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین توقیر ضیا نے بگ تھری کے منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے اسے کھیل کے لیے بدقسمتی قرار دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ آئی سی سی کے تحت ’’سب چیزیں چل رہی تھیں، لوگوں کے رابطے اچھے تھے، اب اس میں سیاست آگئی ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کی نیوزی لینڈ میں کارکردگی اور انگیلنڈ کی آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست فاش کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک ’’صرف مزید پیسہ کمانے کے لیے‘‘ آئی سی سی میں یہ تبدیلی لے کر آئے ہیں۔
ادھر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف نے سنگاپور میں اجلاس کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں اس تاثر کو رد کیا ہے کہ بگ تھری کی منظوری کے بعد پاکستان کرکٹ میں اکیلا رہ گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ وطن واپس آکر اپنے بورڈ سے مشاورت کے بعد لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دو طرفہ کرکٹ سیریز کھیلنے کے علاوہ دیگر مراعات کی پیشکش بھی کی لیکن ذکا اشرف کے بقول بھارتی بورڈ اس بارے میں کسی طرح کی ٹھوس ضمانت دینے پر تیار نہیں تھا۔
پاکستانی کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین توقیر ضیا کا مشورہ بھی یہی تھا کہ پاکستان کو اب سوچ سمجھ کر اپنے لیے مفید راستہ چننا ہوگا۔
’’دو ہی آپشن ہیں، یا تو کہہ دیں کہ سوری ہم یہ قبول نہیں کرتے اور ہم کرکٹ نہیں کھیلتے، کرکٹ بھی ختم ہوگئی اور پیسہ بھی ختم ہوگیا، لیکن یہ جذباتی موقف ہے، دوسرا موقف یہ ہے کہ اب اس میں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں اور لوگوں کو قائل کریں کہ ہمارے ساتھ کھیلیں، کیسے پیسہ جنریٹ کرنا ہے اور کیسے کرکٹ کو فروغ دینا ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے آئی سی سی کے اجلاس میں پانچ رکنی اعلیٰ اختیاراتی ایگزیکٹو کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا گیا تھا جس میں بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ مستقل رکن ہوں گے۔
بورڈ نے مستقبل میں ٹیموں کے دورے طے کرنے کا اختیار آئی سی سی کی بجائے رکن ملکوں کو دینے پر بھی اتفاق کیا تھا جس کے تحت رکن ممالک 2015ء سے 2023ء تک دو طرفہ میچوں کا شیڈول خود طے کرسکیں گے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی طرف سے ہفتہ کو جاری بیان کے مطابق سنگاپور میں ہونے والے اجلاس میں قرارداد کے حق میں دس ممبر ملکوں میں سے آٹھ نے ووٹ دیے۔
پاکستان اور سری لنکا نے یہ کہہ کر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا کہ مسودے پر سوچ بچار کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
آئی سی سی کے انتظامی و مالی معاملات پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بھارت نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ساتھ مل کر یہ تجویز پیش کی تھی۔
اس قرارداد کی منظوری کے بعد کرکٹ کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ان تینوں ملکوں کے بورڈز کو ملے گا۔
بیان کے مطابق بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر این سری نواسن رواں سال جولائی میں آئی سی سی بورڈ کے سربراہ جب کہ کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ویلے ایڈورڈ نئی تشکیل شدہ ایگزیکٹو کمیٹی کی سربراہی سنبھالیں گے۔
پاکستان، سری لنکا اور جنوبی افریقہ ’’بگ تھری‘‘ کے اس منصوبے سے متفق نہیں تھے لیکن ہفتہ کو ہونے والی ووٹنگ میں جنوبی افریقہ نے اس کے حق میں ووٹ دے کر قرارداد کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان میں کرکٹ کے حلقوں میں بگ تھری منصوبے کی شروع ہی سے مخالفت میں آوازیں اٹھتی رہی ہے اور اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ کرکٹ کے کھیل کے لیے بھی سودمند نہیں ہوگا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین توقیر ضیا نے بگ تھری کے منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے اسے کھیل کے لیے بدقسمتی قرار دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ آئی سی سی کے تحت ’’سب چیزیں چل رہی تھیں، لوگوں کے رابطے اچھے تھے، اب اس میں سیاست آگئی ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کی نیوزی لینڈ میں کارکردگی اور انگیلنڈ کی آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست فاش کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک ’’صرف مزید پیسہ کمانے کے لیے‘‘ آئی سی سی میں یہ تبدیلی لے کر آئے ہیں۔
ادھر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف نے سنگاپور میں اجلاس کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں اس تاثر کو رد کیا ہے کہ بگ تھری کی منظوری کے بعد پاکستان کرکٹ میں اکیلا رہ گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ وطن واپس آکر اپنے بورڈ سے مشاورت کے بعد لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دو طرفہ کرکٹ سیریز کھیلنے کے علاوہ دیگر مراعات کی پیشکش بھی کی لیکن ذکا اشرف کے بقول بھارتی بورڈ اس بارے میں کسی طرح کی ٹھوس ضمانت دینے پر تیار نہیں تھا۔
پاکستانی کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین توقیر ضیا کا مشورہ بھی یہی تھا کہ پاکستان کو اب سوچ سمجھ کر اپنے لیے مفید راستہ چننا ہوگا۔
’’دو ہی آپشن ہیں، یا تو کہہ دیں کہ سوری ہم یہ قبول نہیں کرتے اور ہم کرکٹ نہیں کھیلتے، کرکٹ بھی ختم ہوگئی اور پیسہ بھی ختم ہوگیا، لیکن یہ جذباتی موقف ہے، دوسرا موقف یہ ہے کہ اب اس میں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں اور لوگوں کو قائل کریں کہ ہمارے ساتھ کھیلیں، کیسے پیسہ جنریٹ کرنا ہے اور کیسے کرکٹ کو فروغ دینا ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے آئی سی سی کے اجلاس میں پانچ رکنی اعلیٰ اختیاراتی ایگزیکٹو کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا گیا تھا جس میں بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ مستقل رکن ہوں گے۔
بورڈ نے مستقبل میں ٹیموں کے دورے طے کرنے کا اختیار آئی سی سی کی بجائے رکن ملکوں کو دینے پر بھی اتفاق کیا تھا جس کے تحت رکن ممالک 2015ء سے 2023ء تک دو طرفہ میچوں کا شیڈول خود طے کرسکیں گے۔