علی رانا
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی جانب سے فیض آباد دھرنے کے شرکا کو رات 12بجے تک کی آخری ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے۔ اسلا م آباد میں فیض آباد کے مقام پر ہونے والا مذہبی جماعتوں کا دھرنا انیسویں روز میں داخل ہو چکا ہے ۔ دھرنا مظاہرین اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ حکومت ان کے مطالبات ماننے سے انکار چکی ہے۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی طرف سے جاری نوٹس میں کہا گیا ہے کہ دھرنے کے شرکاء دو ہفتوں سے غیر قانونی طور پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں ۔اس پہلے بھی 3بار واننگ نوٹس دیا جا چکا ہے۔ ڈیڈ لائن گذر جانے کے بعد مظاہرین سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
ضلعی انتظامیہ کا موقف ہے کہ دھرنے کے شرکا دو ہفتے سے قانون کی مسلسل خلاف ورزی کررہے ہیں۔ ہائی کورٹ کے حکم پر فیض آباد کے قریب پریڈ گراؤنڈ جلسے جلوس کے لیے مختص کیا گیا ہے لیکن مظاہرین وہاں جانے کے بجائے غیر قانونی طور پر فیض آباد آباد پر موجود ہیں۔
پولیس نے دھرنا کے قریب سیکیورٹی سخت کردی ہے اور ممکنہ آپریشن کے پیش نظر نزدیکی ہوٹل اور بس اڈے خالی کرا دیے ہیں۔
پولیس نے دھرنے میں ڈنڈے اور کلہاڑیاں لے جانے کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔ پولیس نے کارروائی کے دوران ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے بھری 2 گاڑیوں کو قبضے میں لے کر 9 افراد کو گرفتار کرکے تھانہ آئی نائن منتقل کردیا۔ پولیس کے مطابق گرفتار افراد میں راول پنڈی کے پیر سائیں سرکار بھی شامل ہیں۔
ایک اور کارروائی میں راول پنڈی کے تھانہ نیو ٹاؤن کی پولیس نے دھرنا مظاہرین کے لیے کھانا لے جانے والی گاڑی کو قبضے میں لے کر تھانے منتقل کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق کھانا لے جانے والی وین کو گلشن دادن خان کے قریب سے تحویل میں لیا گیا اور واجد نامی شخص کو 800 پیکٹ چاولوں سمیت گرفتار کیا گیا۔
پولیس کے اہلکاروں کی کثیر تعداد بھی دھرنا مظاہرین کے گرد جمع ہے۔ جبکہ مظاہرین نے بھی ممکنہ آپریشن سے نمٹنے کے لیے اپنے پاس ڈنڈے اور پتھر جمع کر رکھے ہیں
فیض آباد کے مقام پر جاری اس دھرنا کو 19دن ہو گئے ہیں اور جڑواں شہروں کے لاکھوں لوگ موجودہ صورت حال سے شديد پریشان ہیں، عوام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت کا نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے۔ اسلام آباد اور راول پنڈی کے اس حساس مقام کو بند کرکے جڑواں شہروں کو مفلوج کردیا گیا ہے اور حکومت بے بس نظر آ رہی ہے۔
اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کا مشاورتي اجلاس ہوا جس میں چیف کمشنر ذوالفقار حیدر، آئی جی اسلام آباد اور ایس ایس پی ساجد کیانی نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے مختلف پہلوؤں پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ وزارت داخلہ ہی آپریشن کا حتمی فیصلہ کرے گی۔ شرکا نے اس معاملے پر غور کیا کہ آتشیں اسلحے کے استعمال کے بغیر آپریشن کو کیسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے باعث عوام کو شديد مشکلات کا سامنا ہے جب کہ حکومت بھی اب تک اس دھرنے کے خاتمے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے۔
حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان مذاكرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں لیکن تمام ہی بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔
دھرنے کے باعث کئی اہم شاہراہوں کو کنٹینر لگا کر بند کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو متبادل راستوں پر ٹریفک جام جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ پندرہ روز سے میٹرو بس سروس بھی معطل ہے جب کہ فیض آباد اور اطراف کے دکاندار بھی شديد پریشان ہیں۔
اسکول و کالج جانے والے طلبا و طالبات کو طویل سفر طے کر کے اپنی منزل پر پہنچنا پڑتا ہے۔ اسی طرح دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین بھی شديد پریشان ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے واضح کیا کہ دھرنے والوں کی جانب سے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کسی صورت تسلیم نہیں کر سکتے۔ آج ان کے مطالبات مان لیے تو مزید لوگ اسلام آباد میں دھرنے دینا شروع ہو جائیں گے۔ وزیر قانون کا استعفیٰ محض ان کی ضد ہے حالانکہ وزیر قانون زاہد حامد نے ختم نبوت قانون کو مزید موثر بنایا اور ان کی کوششوں سے ختم نبوت کا قانون مزید مضبوط ہوگیا ہے۔