سندھ میں پرندوں کے شکار پر ایک برس کی پابندی؛ کیا اس بار عرب شکاری نہیں آئیں گے؟

فائل فوٹو

سندھ کی کابینہ نے صوبے میں سیلاب کی صورتِ حال کے باعث دیگر علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کے شکار پر ایک سال کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔

منگل کو کابینہ کے اجلاس میں محکمۂ وائلڈ لائف نے پرندوں کے شکار پر پابندی کی سمری پیش کی، جس میں کہا گیا تھا کہ موجودہ قدرتی آفت کے دوران جنگلی حیات کو انسانی جان کے برابر نقصان پہنچا ہے۔ اس لیے ان کے شکار پر پابندی عائد کی جائے۔

بعد ازاں کابینہ نے تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے مقامی پرندوں اور نقل مکانی کرنے والے آبی پرندوں کے شکار پر ایک سال تک پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔

اجلاس میں وزیرِ اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں پرندے سیلاب میں مر گئے ہیں، پرندوں کی افزائش نسل کے پیشِ نظر کابینہ نے ان کے شکارپر پابندی عائد کی ہے۔

تاہم وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ سندھ کے کنزرویٹر جاوید مہر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ پابندی صرف مہاجر پرندوں اور مقامی پرندوں میں سے گیمز برڈ کہلانے والے پرندوں تک محدود ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ مہاجر پرندوں میں سائبیریا میں سخت سردی کے موسم میں پاکستان اور افریقہ تک ہجرت کرکے آنے والی مرغابیاں شامل ہیں جب کہ صوبے میں پائے جانے والے 340 پرندوں میں سے گیم برڈز صرف سات آٹھ پرندے ہیں، جن کا شکار اس سال ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گیمز برڈز زیادہ تر زمین پر اپنا مسکن بناتے ہیں۔ ان کی افزائش تیزی سے ہوتی ہے اور یہ صرف رات کے وقت ہی درختوں پر بیٹھتے ہیں لیکن رواں برس جب کئی دن تک شدید بارش ہوئی۔ نتیجے میں صوبے کے وسیع ترعلاقوں میں پانی کھڑا ہو گیا تھا تو ایسے پرندوں نے درختوں پر پناہ لی یا پھر قریب ہی خشک زمین کی طرف چلے گئے، جہاں کم رقبے پر بڑے پیمانے پر یہ پرندے موجود ہیں۔

SEE ALSO: بلوچستان میں شکار کے الزام میں سات غیر ملکی گرفتار

انہوں نے مزید کہا کہ ان حالات کے پیشِ نظر تجویز سامنے آئی کہ مرغابیوں اور گیم برڈز، جن میں تیتر بھی شامل ہے، کا شکار کرنے والے اگر اس آفت کے ستائے ہوئے پرندوں کا شکار کریں گے، تو انہیں بہت بڑی تعداد میں شکار ملے گا اور یوں ان کی نسل کشی کا خطرہ تھا۔ اس لیے ان کے شکار پر اس سال پابندی عائد کی گئی ہے۔

سندھ میں ہر سال لائسنس کے ذریعے ایسے پرندوں کا شکار کرنے والوں کی تعداد تین سے چار ہزار بنتی ہے، لیکن غیر قانونی شکار کرنے والوں کی تعداد اس سے دگنی سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ پرندوں کے غیر قانونی شکار پر قید کے ساتھ 10 ہزار جرمانہ بھی عائد ہوتا ہے جب کہ دیگر ممنوع جانوروں کے غیر قانونی شکار پر بھی جرمانہ 14 لاکھ تک بھی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے کنسلٹنٹ معظم خان نے صوبائی حکومت کی جانب سے پرندوں کے شکار پر عائد پابندی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے یقینی طور پر ان کی افزائش میں مدد ملے گی اور یہ اس حوالے سے یہ بروقت فیصلہ ہے۔

تلور کے شکار پر کوئی پابندی نہیں

حکام کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ اور تلور کا شکار کرنے والے علاقوں میں صورتِ حال مختلف ہے۔ ایسے علاقوں میں جہاں ٹرافی ہنٹنگ ہوتی ہے یا تلور کا شکار کیا جاتا ہے وہ تباہی کا شکار نہیں ہوئے۔ ٹرافی ہنٹنگ میں مقامی کمیونٹی کے ساتھ مل کر غیر قانونی شکار کا راستہ روکا جاتا ہے۔ اس ضمن میں پالیسی صوبہ تیار کرتا ہے اور پھر وفاق سے بھی اس کی منظوری لی جاتی ہے۔ اس میں ہنٹنگ والے جانوروں کو شمار کرنے کے بعد اس میں بین الاقوامی کنونشن کے تحت فکس کوٹے کے تحت شکار کے لائسنس کی تعداد کا تعین ہوتا ہے۔

SEE ALSO: عرب شہزادوں کو پاکستان میں تلور کے شکار کی اجازت مل گئی

لائسنس کے حصول کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ایک مارخور کے شکار کی قیمت ایک کروڑ 52 لاکھ روپے مقرر ہوئی تھی۔

سندھ میں بھی آئبیکس کے شکار کے 10 کوٹے ہوتے ہیں، جن کی قیمت چار سے پانچ لاکھ مقرر ہوتی ہے جب کہ اڑیال کے شکار کا لائسنس 14 سے 15 لاکھ روپے تک نیلام ہوتا ہے۔

لائسنسنگ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم حکومتی خزانے میں نہیں جاتی بلکہ 80 فی صد پیسہ ان علاقوں میں مقامی کمیونٹی کو دیا جاتا ہے، جس سے وہ تنخواہیں ادا کرتے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کی مثالیں دنیا میں کافی سراہی گئی ہیں۔ اسی پروگرام کی وجہ سے ملک میں مارخور کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔

تلور کا شکار عربوں میں مقبول، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جز

تلور کا شکار صحرائی اور کُھلے علاقوں میں ہوتا ہے۔ حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تلور کے شکار پر کوئی پابندی نہیں ہے اور اس کے لیے پہلے ہی کی طرح لائسنس جاری کرنے کا طریقہ رائج ہے۔

عقابوں کے ذریعے تلور کا شکار عربوں میں بہت مقبول ہے۔ تلور کے شکار میں بندوق کا استعمال نہیں کیا جاتا۔

Your browser doesn’t support HTML5

جانوروں کا غیر قانونی شکار روکنے کی کوششیں

تلور کے شکار کے لیے مقامی افراد پیدل چل کر تلور کے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہیں۔ پھر انہیں پکڑنے کے لیے تربیت یافتہ عقابوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی ہے اور بھوکا رکھا جاتا ہے تاکہ وہ پوری طاقت سے شکار پر جھپٹ سکیں۔ تلور نظر آتے ہی عقاب کو چھوڑ دیا جاتا ہے جو اس کی گردن پر حملہ آور ہوتا ہے۔

سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے صحرائی علاقوں میں نومبر، دسمبر اور جنوری میں بڑی تعداد میں عرب شہزادے تلور کے شکار کے لیے آتے ہیں۔

اگست 2015 میں جب سپریم کورٹ نے ملک میں تلور کے شکار پر پابندی عائد کی تو حکومت کی جانب سے اس پر نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی گئی۔

وفاقی حکومت کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اس قسم کی پابندی سے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے۔ حکومت کی جانب سے عرب شہزادوں کو تلور کے شکار کی اجازت دینا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون قرار دیا گیا تھا، جس پر عدالت نے جنوری 2016 میں تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔

حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق غیر ملکیوں کو 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہے جس کی فیس ایک لاکھ ڈالر ہے اور اضافی تلور شکار کرنے پر فی تلور ایک ہزار امریکی ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔

اعلامیے کے تحت فیس کے علاوہ شکار کے علاقے میں انہیں فلاح و بہبود کا کام بھی کرانا ہوتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پچاس اقسام کے پردیسی پرندوں کے شکار کی اجازت

تلور کا شکار کرنے کے لیے استعمال ہونے والے عقاب پر ایک ہزار ڈالر فیس وصول کی جاتی ہے جب کہ تمام شکار کیے گئے پرندوں پر کسٹم ڈیوٹی الگ سے ادا کرنی ہوتی ہے۔

اس طرح کے اجازت نامے حاصل کرنے والوں میں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد سمیت ان کے خاندان کے افراد اور دیگر خلیجی ریاستوں کے اعلیٰ حکام بھی شامل ہوتے ہیں جب کہ پاکستان میں ان کی آمد سے مقامی افراد کے لیے بھی روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔