لاپتا طیارہ: 'سرچ آپریشن' میں وسعت، بھارت بھی سرگرم

جہاز کی تلاش میں اس وقت 13 ملکوں کے 57 بحری جہاز اور کشتیاں اور 48 ہوائی جہاز شریک ہیں۔

طیارے کا کوئی سراغ نہ ملنے کے بعد تلاش کا دائرہ بتدریج بڑھایا جارہا ہے جو گزشتہ سات روز کے دوران اب کھلے سمندر اور زمین کے کئی ہزار کلومیٹر تک پھیل گیا ہے۔
ملائیشیا کی حکومت نے سات روز قبل لاپتا ہونے والے طیارے کی تلاش کی سرگرمیوں کو مزید وسعت دیتے ہوئے 'سرچ آپریشن' کا دائرہ بحیرۂ ہند تک بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔

جمعے کو دارالحکومت کوالالمپور میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ملائیشیا کے وزیرِ برائے ٹرانسپورٹ ہشام الدین حسین نے بتایا کہ "بعض ناگزیر وجوہات" کی بناء پر تلاش کی سرگرمیوں کو بحیرۂ ہند تک بڑھا دیا گیا ہے جو اس مقام سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے جہاں گزشتہ ہفتے طیارے کو ریڈار پر آخری بار دیکھا گیا تھا۔

ملائیشین وزیر نے بتایا کہ بحیرۂ جنوبی چین کے دور دراز علاقوں میں بھی لاپتا طیارے کو تلاش کیا جارہا ہے جس کی گمشدگی عالمی ایوی ایشن کی جدید تاریخ میں ایک معمہ قرار دی جارہی ہے۔

ملائیشیا کے وزیر برائے ٹرانسپورٹ نے بتایا ہے کہ جہاز کی تلاش کی کاروائی بین الاقوامی اہمیت اختیار کرچکی ہے جس میں اس وقت 13 ملکوں کے 57 بحری جہاز اور کشتیاں اور 48 ہوائی جہاز شریک ہیں۔

بھارت کی بحری افواج کے ایک ترجمان کے مطابق بھارت بھی ملائیشین ایئر ویز کی پرواز 'ایم ایچ 370' کی تلاش میں شامل ہوگیا ہے اور اس کے دو طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر جزائر انڈیمان اور نکوبار میں لاپتا طیارے کو تلاش کر رہے ہیں۔

بھارت کی سمندری حدود میں آنےو الے 500 سے زائد یہ چھوٹے بڑے غیر آباد جزائر بحیرۂ ہند میں 720 کلومیٹر طویل اور 52 کلومیٹر چوڑی پٹی پر پھیلے ہوئے ہیں اور گھنے جنگلات سے گھرے ہوئے ہیں۔

بھارتی بحریہ کے ترجمان نے اس وسیع و عریض سلسلۂ جزائر میں لاپتا طیارے کی تلاش کو "بھوسے کے ڈھیرمیں سوئی " تلاش کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

بھارت کی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ خلیجِ بنگال سے متصل ریاست چنائی کی 600 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی میں بھی لاپتہ طیارے کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔

جمعے کو اپنی پریس کانفرنس میں ملائیشیا کے وزیر برائے ٹرانسپورٹ نے ان خبروں پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا جن میں کہا گیا تھا کہ 'ریڈار' سے غائب ہونے کے کئی گھنٹے بعد بھی گمشدہ طیارے سے نشر ہونے والے خودکار سنگل مواصلاتی سیاروں کو موصول ہوتے رہے تھے۔

جمعرات کو بھی امریکی حکام نے بعض مواصلاتی سیاروں کو کسی طیارے کے بہت کمزور سگنل موصول ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا ان سگنلز کے ذریعے طیارے کے مقام کا پتا لگایا جاسکتا ہے یا جس وقت سنگلز موصول ہوئے اس وقت طیارہ محوِ پرواز تھا یا نہیں۔

ملائیشین وزیر ہشام الدین حسین کے مطابق ان کا ملک لاپتا طیارے سے متعلق کسی بھی قسم کی سیٹلائٹ معلومات حاصل کرنے کے لیے امریکہ سے مستقل رابطے میں ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ طیارے سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات کو بغیر تصدیق کے عوام کے لیے جاری کرنا غیر اخلاقی اور نامناسب ہوگا۔

خیال رہے کہ ہفتے کو علی الصبح ریڈار سے اچانک غائب ہوجانے والے مسافر طیارے کو ابتدائی طور پر خلیجِ تھائی لینڈ کے آس پاس تلاش کیا جارہا تھا جہاں طیارے کو آخری بار ریڈار پر دیکھا گیا تھا۔

لیکن طیارے کا کوئی سراغ نہ ملنے کے بعد تلاش کا دائرہ بتدریج بڑھایا جارہا ہے جو گزشتہ سات روز کے دوران اب کھلے سمندر اور زمین کے کئی ہزار کلومیٹر تک پھیل گیا ہے۔

کوالالمپور سے بیجنگ جانے والے 'بوئنگ 777' ساختہ اس طیارے پر سوار مسافروں کی دو تہائی تعداد کا تعلق چین سے تھا جب کہ باقی مسافر ایشیائی ممالک، یورپ اور شمالی امریکہ کے چند ملکوں سے تعلق رکھتے تھے۔