عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ جہاز خشکی سے نزدیک ہی تھا اور ساحل پر موجود لوگوں کے دیکھتے ہی دیکھتے غرقاب ہوگیا۔
واشنگٹن —
جنوبی کوریا کے ایک مسافر بردار بحری جہاز کے حادثے میں لاپتا ہونے والے 290 افراد کی تلاش جمعرات کو مسلسل دوسرے روز بھی جاری ہے۔
حکام نے بدھ کو پیش آنے والے حادثے میں اب تک چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جب کہ 179 افراد کو بحفاظت ساحل پر پہنچایا جاچکا ہے۔
خیال رہے کہ لگ بھگ ساڑھے چار سو مسافروں سے لدا بحری جہاز منگل کی شب انچیون نامی بندرگاہ سے سیاحتی جزیرے جیجو کے لیے روانہ ہوا تھا۔ جہاز پر ایک مقامی اسکول کے 340 طلبہ اور اساتذہ بھی سوار تھے جو معلوماتی دورے پر جیجو جارہے تھے۔
جہاز بدھ کی سہ پہر اس وقت ڈوب گیا تھا جب وہ جنوبی ساحلی شہر جنڈو کے نزدیک سے گزر رہا تھا۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ جہاز خشکی سے نزدیک ہی تھا اور ساحل پر موجود لوگوں کے دیکھتے ہی دیکھتے غرقاب ہوگیا۔ جنوبی کوریا کے ایک ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے مناظر میں بحری جہاز کو ایک رخ پر جھکتے اور پھر بتدریج ڈوبتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ 146 میٹر طویل جہاز جاپانی ساختہ تھا جسے 1994ء میں بنایا گیا تھا اور اس پر 900 افراد کے سوار ہونے کی گنجائش تھی۔
تاحال حادثے کی وجوہات کا علم نہیں ہوسکا ہے لیکن ساحل پر پہنچنے والے بحری جہاز کے عملے کے بعض ارکان اور مسافروں نے بتایا ہے کہ انہوں نے جہاز کے ڈوبنے سے پہلے زوردار آواز سنی تھی۔
جنوبی کوریا کے حکام کے مطابق بحری جہاز کے حادثے میں لاپتہ ہونے والے افراد کی تلاش کی کام بڑے پیمانے پر انجام دیا جارہا ہے جس میں 100 سے زائد کشتیاں اور 18 ہیلی کاپٹر شریک ہیں۔
جہاز پر سوار چند طلبہ کے والدین نے دعویٰ کیا ہے کہ بحری جہاز کے ایک حصے میں اب بھی چند طلبہ اور مسافر پھنسے ہوئے ہیں اور اپنے رشتے داروں سے موبائل فونز کے ذریعے رابطے میں ہیں۔
کم از کم دو طلبہ کے والدین نے اپنے بچوں کی جانب سے موبائل پیغامات وصول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
طلبہ کے والدین اور دیگر لاپتہ مسافروں کے لواحقین کی ایک بڑی تعداد جنڈو کے ساحل پر موجود ہے جہاں سے ڈوبا ہوا جہاز اور اس کے گرد جاری امدادی سرگرمیاں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔
لاپتہ طلبہ کے والدین نے امدادی سرگرمیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے حکام پر سست روی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
حکام نے بدھ کو پیش آنے والے حادثے میں اب تک چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جب کہ 179 افراد کو بحفاظت ساحل پر پہنچایا جاچکا ہے۔
خیال رہے کہ لگ بھگ ساڑھے چار سو مسافروں سے لدا بحری جہاز منگل کی شب انچیون نامی بندرگاہ سے سیاحتی جزیرے جیجو کے لیے روانہ ہوا تھا۔ جہاز پر ایک مقامی اسکول کے 340 طلبہ اور اساتذہ بھی سوار تھے جو معلوماتی دورے پر جیجو جارہے تھے۔
جہاز بدھ کی سہ پہر اس وقت ڈوب گیا تھا جب وہ جنوبی ساحلی شہر جنڈو کے نزدیک سے گزر رہا تھا۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ جہاز خشکی سے نزدیک ہی تھا اور ساحل پر موجود لوگوں کے دیکھتے ہی دیکھتے غرقاب ہوگیا۔ جنوبی کوریا کے ایک ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے مناظر میں بحری جہاز کو ایک رخ پر جھکتے اور پھر بتدریج ڈوبتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ 146 میٹر طویل جہاز جاپانی ساختہ تھا جسے 1994ء میں بنایا گیا تھا اور اس پر 900 افراد کے سوار ہونے کی گنجائش تھی۔
تاحال حادثے کی وجوہات کا علم نہیں ہوسکا ہے لیکن ساحل پر پہنچنے والے بحری جہاز کے عملے کے بعض ارکان اور مسافروں نے بتایا ہے کہ انہوں نے جہاز کے ڈوبنے سے پہلے زوردار آواز سنی تھی۔
جنوبی کوریا کے حکام کے مطابق بحری جہاز کے حادثے میں لاپتہ ہونے والے افراد کی تلاش کی کام بڑے پیمانے پر انجام دیا جارہا ہے جس میں 100 سے زائد کشتیاں اور 18 ہیلی کاپٹر شریک ہیں۔
جہاز پر سوار چند طلبہ کے والدین نے دعویٰ کیا ہے کہ بحری جہاز کے ایک حصے میں اب بھی چند طلبہ اور مسافر پھنسے ہوئے ہیں اور اپنے رشتے داروں سے موبائل فونز کے ذریعے رابطے میں ہیں۔
کم از کم دو طلبہ کے والدین نے اپنے بچوں کی جانب سے موبائل پیغامات وصول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
طلبہ کے والدین اور دیگر لاپتہ مسافروں کے لواحقین کی ایک بڑی تعداد جنڈو کے ساحل پر موجود ہے جہاں سے ڈوبا ہوا جہاز اور اس کے گرد جاری امدادی سرگرمیاں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔
لاپتہ طلبہ کے والدین نے امدادی سرگرمیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے حکام پر سست روی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔