انڈونیشا کے حکام کا کہنا ہے کہ میانمار اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تقریباً 800 سے زائد تارکین وطن کو جمعہ کو اس وقت بچا لیا گیا جب ان کی کشتی انڈونیشیا کے صوبے آچے کے ساحل کی قریب ڈوب گئی۔
تارکین وطن کی کشتی کے ڈوبنے کے تناظر میں تارکین وطن کے معاملے کو جنوب مشرقی ایشیا میں نہایت سنگین صورت حال قرار دیا جارہا ہے۔
لنگاسا کی بندر گاہ کے حکام کے مطابق مقامی ماہی گیروں نے ڈوبنے والی کشتی کو دیکھا اور تارکین وطن کو ساحل پر لے کر آئے اور انہیں ایک گودام میں رکھا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق جمعہ کو انڈونیشیا کے مغربی صوبے سماٹرا کے ساحل پر کئی تارکین وطن اترے ہیں تاہم ان کی صحیح تعداد کے بارے میں نہیں بتایا گیا ہے جبکہ انڈونیشیا کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے دو کشتیوں کو واپس بھیج دیا ہے۔
دوسری طرف تھائی لینڈ کے سیورن جزیرے کے ساحل پر بھی جمعرات کی رات کو 106 افراد پہنچے جنہیں بعد میں فانگ نگا لے جایا گیا جہاں انہیں نقل مکانی کے لیے بین الاقوامی تنظیم (آئی او ایم) کی طرف سے امداد فراہم کی جائے گی۔ آئی او ایم اس خطے کی حکومتوں کو ان کے ہاں ملنے والے تارکین وطن کے لیے خوراک، پانی اور ادویات فراہم کرنے کے لیے 10 لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کر رہی ہے۔
لکڑی کی ایک کشتی جس پر بچوں اور عورتوں سمیت کئی سو روہنگیا تارکین وطن سوار تھے اسمگلروں کی طرف سے چھوڑے جانے کے بعد دوسری باری ملائیشیا کی سمندری حدود میں واپس آ گئی ہے۔ گزشتہ رات اس کشتی کے لیے تھائی لینڈ بحریہ کے ہیلی کاپٹرکے ذریعے کچھ امدادی سامان گرایا۔
اس کشتی پر سوار افراد کا کہنا ہے کہ میانمار جسے برما بھی کہا جاتا ہے، سے سفر کرنے کے بعد اب تک 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن کی لاشوں کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔
تھائی لینڈ کی فوجی حکومت کے ترجمان میجر جنرل سنسرن کیوکناد کا کہنا ہے کہ تھائی لینڈ کے ساحلوں پر اترنے والے کسی بھی تارکین وطن پر غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے پر مقدمہ چلایا جائے گا۔
حالیہ دنوں میں انڈونیشیا اور ملائیشیا نے بنگلہ دیش اور میانمار کے تارکین وطن سے بھرے پرانے جہازوں کو واپس بھیج دیا تھا۔
اس ہفتے کے اوائل میں کشتیوں سے چھوڑے جانے والے 1000 سے زائد افراد تیر کر ملائیشیا کے ساحل پر پہنچے۔ عہدیداروں کا کہنا ہے انہیں حراستی مراکز میں رکھا جا رہا ہے اور ان کو کسی دوسرے جگہ واپس بھیجنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔