پاکستان میں غیر قانونی طریقوں سے بیروزگار نوجوانوں کو یورپ اور خلیجی ممالک پہنچانے کا جھانسا دینے والے انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
ایف آئی اے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ نومبر 2017 میں تر بت سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے پچیس افراد کی لاشوں کی برآمدگی کے واقعے کے بعد انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کاروائیوں میں تیزی لائی گئی ہے ۔ ایک سال سے بھی کم عر صے میں بیرون جانے کی کو شش کر نے والے 1843 افراد کو گرفتار کر کے اُن کے خلاف 985 کیسز رجسٹرڈ کئے جاچکے ہیں جبکہ ڈیڑھ درجن سے زائد انسانی اسمگلروں کو گرفتار کیا جاچکاہے ۔
ایف آئی اے کے شعبہ انسانی اسمگلنگ اور امیگریشن کے اسٹنٹ ڈائریکٹر جواد احمد نے وائس آف امر یکہ کو بتایا کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث عنا صر کے خلاف ایف آئی اے ، فرنٹیر کور، پولیس ، لیویز اور دیگر اداروں کے ساتھ ملکر کاروائیاں کر تی ہے جس کی بدولت ادارے نے مختصر عر صے میں کئی کامیاب کاروائیاں کی ہیں۔
اُن کے بقول ملک کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان سے بھی لوگ بہتر ذرائع معاش کےلئے قانونی دستاویزات یا مستند دستاویزات کے بغیر بیرون ملک جانے کی کو شش کر تے ہیں ، ایف آئی اے نے اس سلسلے میں کافی کاروائیاں کی ہیں ۔ تربت واقعہ کے بعدسےادارے نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث بیس ایجنٹس کو گرفتار کیا ہے جو کو ئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں انسانی اسمگلنگ کا گھناؤنا کاروبار کر رہے تھے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب ، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نوجوان انسانی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو ان نوجوانوں سے لاکھوں روپے وصول کر کے بلوچستان سے غیر قانونی راستوں سے ایران یا تُر کی پہنچا نے کی کو شش کر تے ہیں۔ اس دوران یہ اسمگلرسہانے مستقبل کے سنہری خواب دکھا کر نوجوانوں کو سخت تر ین موسمی سختیاں اور طرح طرح کے خطرات جیلنے کےلئے بھی آمادہ کر لیتے ہیں۔
گزشتہ سال نومبر میں یہی اُمید لے کر صوبہ پنجاب سے یورپ جانے کی کو شش کرنے والے 25 نوجوانوں کو پہلے اغوا اور اُس کے بعد گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔ اس واقعےکی ذمے داری بعد میں ایک بلوچ عسکر یت پسند تنظیم کی طرف سے قبول کر لی گئی ۔
ایف آئی حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے بعد کاروائیاں جاری ہیں اور رواں ہفتے کے دوران ہی کو ئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں ایف آئی اے نے ایک مسافر کوچ سے بیس زائد افراد کو حراست میں لیا ہے جو غیر قانونی راستوں سے بیرون ملک جانے کو شش کر رہے تھے ۔ان افراد کو کوچ کے اندر بنائے گئے خطرناک خفیہ خانوں سے بازیا ب کر ایا گیا۔
ایف آئی اے کے اسٹنٹ ڈائریکٹر جواد احمد کا انسانی اسمگلنگ روکنے کے حوالے سے کہنا ہے کہ موجودہ قوانین میں تبدیلیاں لانی چاہئیں جبکہ غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والے افراد کو دی جانے والی سزاءاور جرمانوں میں بھی اضافہ ہونا چاہیے ۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی مر کزی کمیٹی کے رُکن طاہر حُسین ایڈوکیٹ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ ملک کے سنگین مسائل میں سے ایک ہے۔ یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اسے روکنے کےلئے اداروں کے درمیان مر بوط رابطوں کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کی بہتری کےلئے مغر بی ممالک کو پاکستان کی مدد کےلئے آگے آنا چاہیے اور پاکستان کی حکومت کو ایسے لوگوں کو روزگار کےلئے قرضے فراہم کر نے چاہیں۔
اُن کے بقول ’اس گھناؤنے سازش میں بہت سارے لوگ شامل ہیں ۔سرکاری اداروں کے بعض کارندے مالی فوائد کے حصول کےلئے بھی اس میں شامل ہیں ہم کئی ایسے لوگوں سے ملے ہیں جنہوں نے دو یا تین بار جانے کی کو شش کی ہے۔ یہ مسئلہ سزائیں بڑھانے سے حل نہیں ہوگا اس کےلئے ملک میں لوگوں کو روزگار کی فراہمی میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کےلئے کام کرنے والے سر کاری اداروں کی طرف سے فراہم کردہ مصدقہ معلومات کے مطابق جنوری سن 2014 سے اگست 2018 تک لگ بھگ ایک لاکھ کے قریب غیر قانونی طریقوں سے یورپ اور دیگر ممالک میں جانے کی کو شش کرنے والے افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔