پاکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں انسانی حقوق کے مقدمات میں سزا کی شرح بہت کم ہے جب کہ فوجداری نظامِ انصاف میں اصلاحات اور پراسیکویشن کو مؤثر بنا کر اس صورت حال کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا ہے کہ انسانی حقوق کی وزارت کو سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ملک بھر میں انسانی حقوق کے مقدمات میں سزائیں دیے جانے کی شرح بہت کم ہے۔
شیریں مزاری نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے زیادہ تر مقدمات کا تعلق گھریلو معاملات سے ہوتا ہے۔ اس لیے آزادانہ اور قابل اعتماد شہادت حاصل کرنا ایک مشکل امر ہے۔
انسانی حقوق کی وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ایسے مقدمات میں عدالت سے باہر رضا مندی سے مفاہمت ہو جاتی ہے جب کہ کئی مقدمات میں گواہان اپنے بیان سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملزمان رہا ہوتے ہیں۔
شیریں مزاری کا مزید کہنا ہے کہ کمزور ‘میڈیکولیگل شہادت’ کے علاوہ فرانزک شہادت جمع کرنے کے لیے مہارت کا فقدان بھی اس کی ایک وجہ ہے۔
'گواہان کی عدالت میں پیشی میں کئی مسائل درپیش'
ان کے بقول شہادت کو محفوظ رکھنا اور گواہان کو عدالت میں پیش کرنے کی راہ میں بھی کئی مسائل درپیش ہیں۔
شریں مزاری کے مطابق انسانی حقوق کے مقدمات میں عدالتوں میں سزا دینے کی کم شرح کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شک کا فائدہ ملزم کو ہی ملتا ہے۔
تحریری جواب میں شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے مقدمات میں سزا دینے کی شرح میں اضافے کے لیے فوجداری نظام کا مکمل طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
شیریں مزاری نے کہا کہ وفاقی حکومت کے قومی ایکشن پلان کے تحت ‘نیکٹا’ اور فوجداری نظام میں قانونی اصلاحات واضح کی جائیں گی۔
ان کے بقول صوبائی سطح پر کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جن میں سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں فرانزک لیبارٹریز بھی قائم کریں گی۔
'فوجداری مقدمات میں سزا کی شرح صرف 10 فی صد'
صوبۂ پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل رانا عارف کمال کا کہنا ہے کہ فوجداری مقدمات میں عمومی طور پر سزا کی شرح زیادہ نہیں ہے اور انسانی حقوق کے مقدمات میں بھی یہ شرح بہت ہی کم ہے۔
عارف کمال کا مزید کہنا ہے کہ ایک انداز ے کے مطابق پاکستان میں فوجداری مقدمات میں سزا پانے کی شرح صرف 5 سے 10 فی صد ہے ۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور وکیل کامران عارف کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے مقدمات میں سزا کی شرح بہت ہی کم ہونے کی وجہ تفتیش سائنسی بنیادوں پر نہ ہونا ہے جب کہ اس کا انحصار زبانی شہادت پر ہوتا ہے۔
کامران عارف کے مطابق جب تک پاکستان میں حکومت یہ کوشش نہیں کرے گی کہ وہ سائنٹیفک شہادت کی طرف جائے تو یہ مسئلہ اسی طرح رہے گا کیونکہ زبانی شہادت قابل اعتبار نہیں ہوتی اور گواہان دباؤ میں بھی آ جاتے ہیں۔
کامران عارف نے کہا کہ بعض اوقات پولیس کے تشدد کی وجہ سے بے گناہ لوگ بھی اقبال جرم کر لیتے ہیں اور بعد میں عدالت میں وہ بیان سے منحرف ہو جاتے ہیں۔
'مقدمات میں مدعی پیچھے ہٹ جاتے ہیں'
کامران عارف اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کے مقدمات میں بعض اوقات مدعی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
ان کے بقول یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اگر مدعی پیچھے بھی ہٹ جائے تو پھر بھی پراسیکیوشن جاری رکھنی چاہیے کیوں کہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
دوسری طرف سندھ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی سربراہ ماجدہ رضوی کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے مقدمات میں سزا کی شرح بہت کم ہے اور یہ بات باعث تشویش ہے۔
ماجدہ کا مزید کہنا ہے کہ وہ اس صورت حال کو بہتر کرنے پر کام کر رہے ہیں تاکہ فوجداری نظامِ انصاف بہتر ہو۔
'پولیس کا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت'
ماجدہ رضوی نے کہا کہ پولیس کے رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا رویہ دوستانہ ہونے سے انسانی حقوق کے مقدمات کی تفتیش اور ان کی پراسیکیوشن کے نظام کو بہتر کیا جا سکے۔
ماجدہ رضوی کے مطابق خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات کی بروقت رپورٹنگ نہ ہونے، سائنٹیفک شہادت اور بروقت طبی معائنہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی ایسے مقدمات کو حتمی نتیجے تک پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ برائے 2018 کے مطابق صرف اسلام آباد میں جنوری 2014 سے جون 2018 کے دوران بچوں سے زیادتی کے 79 مقدمات درج ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق ان مقدمات میں ملوث صرف چار افراد کو عدالتوں نے مجرم ٹھیرایا جب کہ خواجہ سراؤں اور خواتین کے خلاف تشدد اور دیگر واقعات میں بھی بہت ہی کم افراد کو سزا سنائی جا سکی ہے۔